عید سعید
بسم اﷲالرحمن الرحیم
رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم اپنے اعوان و انصار کے ساتھ فریضہ حج ادا کرکے واپس تشریف لا رہے تھے کہ حکمِ پروردگارلیکر جنابِ جبرائیل امین حاضرِخدمت ہوئے ۔ رسول اکرم صلی اﷲعلیہ و آلہ وسلم نے فرمانِ خداوندی ہے ۔
یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واﷲ یعصمک من الناس
کی تعمیل کرنیکی خاطر میدان خم غدیرمیں کڑی دھوپ میں پلانوں کے منبرپر جاکرخطبہ دیا جسے ’’ خطبہ غدیر ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس خطبہ کے مکمل کرنے کے بعد جب ختم الرسلؐ نے اپنے بعد اپنی امت کی رہبری و راہنمائی کے لئے حکمِ پروردگار سے حضرت علی ابن ابیطالب ؑ کو بازو کو بلند کرتے ہوئے۔’’ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ‘‘ کہ جس جس کا میں ( محمدؐ) مولا ہوں اس اسکے یہ علی ؑ مولا ہیں۔ اس اعلانِ رسالتؐ کو سن کر صحابہ کرامؓ نے مولا علی ؑ کے دستِ حق پرست پر حکمِ رسولؐ سے بیعیت کرتے ہوئے ’’ مبارک ہو آئے علی ابن ابیطالبؑ آج سے تم ہر مومن و مومنہ کے مولا ہوئے ‘‘کے لفظوں سے مبارک بادی دیتے ہوئے مولا علی ؑ کی سرداری اوراپنی غلامی کا اظہار تو کیا ۔
تفاسیر عامہ وخاصہ شاہد ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر جبرائیل کو بھیجا اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو خو ش خبری دی
’’ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘‘
آج کے دن تمہارے لئے دین کو مکمل کیااور تم پر نعمتیں کامل کر دیں اور میں دین اسلام سے راضی ہو گیا۔
یہ دن وہ واحد عظیم الشان دن ہے کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی نعمت پوری کردی اور اسلام کو پسند کرلیااور اس دن ہی دین
اسلام سے راضی ہوا۔ واضح یہ ہوا کہ یہ اﷲتعالیٰ کے راضی ہونے کا دن ہے۔ تو ہم سب کو بھی اس دن کی یاد منا کر اﷲتعالیٰ کو راضی کرنا چاہیے۔
یہ دن عیدِ سعید کا دن ہے۔ اس دن کی سعادتوں سے فیض حاصل کرنا بھی خوش بختی کی علامت ہے ۔ یہ دن ایک دوسرے کو مبارک بادی دینے کا دن ہے ۔ اس دن کو عید کے طور پر منانا خوشنودی پروردگار اور خوشنودی رسالتمآبؐ کے حصول کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ سیرت اصحابِ کرام کی عکاسی کا دن بھی ہے۔ اس سے منہ موڑنا ان تمام فیوض و برکات سے منہ موڑنا ہے جس سے یہ روزِسعید معمور ہے۔
اس دن کی اہمیت و افادیت کو جانتے ہوئے ادارہ فروغِ فکر اہلبیتؑ نے خطبہ غدیر کا ترجمہ ہرباضمیرفرد کی دہلیزِمعرفعت تک پہنچانے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے دعوتِ فکر وعمل دی ہے ۔ فرمانِ خداوندی ’’ جو کچھ میرا رسول ؐ دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ ‘‘ کے مندرجہ ذیل نسخہ کیمیاء پر عمل کرکے اپنا مقدر سنوار سکیں۔ لکیر کے فقیر بننے کی بجائے دل کی آنکھوں کو کھولئے اورخود ساختہ اور خداساختہ رہبرو راہنمامیں فرق محسوس کر کے اپنی دل کی گہرائیوں سے مانگی جانے والی دعا اھدنا الصراط المستقیمکو فرمانِ خدا اور فرمانِ رسولؐ کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔
اﷲتعالیٰ کا فرمان اقدس ہے کہ ’’ انسان کو ضرور ملے گا جس کی وہ کوشش کرے گا‘‘ اﷲتعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے شخصیت پرستی کے حصار سے نکل کر تعصب کی عینک اتار کر بصارت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بصیرت کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کیجئے کہ رسالت مآبؐنے اپنے اصحابِ کرامؓ کے ذریعہ اپنی امت کے لئے کونسا تحفہ عطا کیا اور تاریخ سے پوچھیے کہ امت رسولؐ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ عجب نہیں کہ آپ کے لیے تلاشِ حق کی راہ کُھل جائے۔
رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم اپنے اعوان و انصار کے ساتھ فریضہ حج ادا کرکے واپس تشریف لا رہے تھے کہ حکمِ پروردگارلیکر جنابِ جبرائیل امین حاضرِخدمت ہوئے ۔ رسول اکرم صلی اﷲعلیہ و آلہ وسلم نے فرمانِ خداوندی ہے ۔
یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واﷲ یعصمک من الناس
کی تعمیل کرنیکی خاطر میدان خم غدیرمیں کڑی دھوپ میں پلانوں کے منبرپر جاکرخطبہ دیا جسے ’’ خطبہ غدیر ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس خطبہ کے مکمل کرنے کے بعد جب ختم الرسلؐ نے اپنے بعد اپنی امت کی رہبری و راہنمائی کے لئے حکمِ پروردگار سے حضرت علی ابن ابیطالب ؑ کو بازو کو بلند کرتے ہوئے۔’’ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ‘‘ کہ جس جس کا میں ( محمدؐ) مولا ہوں اس اسکے یہ علی ؑ مولا ہیں۔ اس اعلانِ رسالتؐ کو سن کر صحابہ کرامؓ نے مولا علی ؑ کے دستِ حق پرست پر حکمِ رسولؐ سے بیعیت کرتے ہوئے ’’ مبارک ہو آئے علی ابن ابیطالبؑ آج سے تم ہر مومن و مومنہ کے مولا ہوئے ‘‘کے لفظوں سے مبارک بادی دیتے ہوئے مولا علی ؑ کی سرداری اوراپنی غلامی کا اظہار تو کیا ۔
تفاسیر عامہ وخاصہ شاہد ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر جبرائیل کو بھیجا اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو خو ش خبری دی
’’ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘‘
آج کے دن تمہارے لئے دین کو مکمل کیااور تم پر نعمتیں کامل کر دیں اور میں دین اسلام سے راضی ہو گیا۔
یہ دن وہ واحد عظیم الشان دن ہے کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی نعمت پوری کردی اور اسلام کو پسند کرلیااور اس دن ہی دین
اسلام سے راضی ہوا۔ واضح یہ ہوا کہ یہ اﷲتعالیٰ کے راضی ہونے کا دن ہے۔ تو ہم سب کو بھی اس دن کی یاد منا کر اﷲتعالیٰ کو راضی کرنا چاہیے۔
یہ دن عیدِ سعید کا دن ہے۔ اس دن کی سعادتوں سے فیض حاصل کرنا بھی خوش بختی کی علامت ہے ۔ یہ دن ایک دوسرے کو مبارک بادی دینے کا دن ہے ۔ اس دن کو عید کے طور پر منانا خوشنودی پروردگار اور خوشنودی رسالتمآبؐ کے حصول کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ سیرت اصحابِ کرام کی عکاسی کا دن بھی ہے۔ اس سے منہ موڑنا ان تمام فیوض و برکات سے منہ موڑنا ہے جس سے یہ روزِسعید معمور ہے۔
اس دن کی اہمیت و افادیت کو جانتے ہوئے ادارہ فروغِ فکر اہلبیتؑ نے خطبہ غدیر کا ترجمہ ہرباضمیرفرد کی دہلیزِمعرفعت تک پہنچانے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے دعوتِ فکر وعمل دی ہے ۔ فرمانِ خداوندی ’’ جو کچھ میرا رسول ؐ دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ ‘‘ کے مندرجہ ذیل نسخہ کیمیاء پر عمل کرکے اپنا مقدر سنوار سکیں۔ لکیر کے فقیر بننے کی بجائے دل کی آنکھوں کو کھولئے اورخود ساختہ اور خداساختہ رہبرو راہنمامیں فرق محسوس کر کے اپنی دل کی گہرائیوں سے مانگی جانے والی دعا اھدنا الصراط المستقیمکو فرمانِ خدا اور فرمانِ رسولؐ کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔
اﷲتعالیٰ کا فرمان اقدس ہے کہ ’’ انسان کو ضرور ملے گا جس کی وہ کوشش کرے گا‘‘ اﷲتعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے شخصیت پرستی کے حصار سے نکل کر تعصب کی عینک اتار کر بصارت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بصیرت کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کیجئے کہ رسالت مآبؐنے اپنے اصحابِ کرامؓ کے ذریعہ اپنی امت کے لئے کونسا تحفہ عطا کیا اور تاریخ سے پوچھیے کہ امت رسولؐ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ عجب نہیں کہ آپ کے لیے تلاشِ حق کی راہ کُھل جائے۔
قارئین اس عظیم واقعہ کی اہمیت اس امر سے واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے اس واقعہ کو ایک سو دس صحابہ کرام نے روایت فرمایا ہے۔ چوراسی تابعین نے روایت کیا ہے اورتین سو ساٹھ علماء عظام و حفاظ قرآن اور مختلف ادوار کے اہل قلم اور ماہرینِ علم نے اسے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔
۲۶ جلیل القدربزرگان دین نے حدیثِ غدیرپر مستقل کتابیں تحریرفرمائی ہیں۔ اور عرب کے ۳۶ اعلیٰ پائے کے شعراء نے اس پر قصیدے کہے ہیں۔ خود مولا علی ؑ نے ۶ مواقع پر حدیثِ غدیر کو بطورحجت پیش کیا۔اس کی مکمل وضاحت کتاب الغدیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
خداوندِکریم ہر طا لبِ حق کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے اور ہر قسم کے ابلیسی حملے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آپ کی عمدہ آراء کے منتظر اراکین ادارہ فروغ ِ فکرِ اہلبیتؑ جانووالا(بہاول پور)
رابط نمبر ۰۳۰۰۷۸۱۶۶۵۳ ۰۳۴۲۷۲۷۷۰۱۴ ۰۳۱۵۴۴۱۲۵۱۴
۲۶ جلیل القدربزرگان دین نے حدیثِ غدیرپر مستقل کتابیں تحریرفرمائی ہیں۔ اور عرب کے ۳۶ اعلیٰ پائے کے شعراء نے اس پر قصیدے کہے ہیں۔ خود مولا علی ؑ نے ۶ مواقع پر حدیثِ غدیر کو بطورحجت پیش کیا۔اس کی مکمل وضاحت کتاب الغدیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
خداوندِکریم ہر طا لبِ حق کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے اور ہر قسم کے ابلیسی حملے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آپ کی عمدہ آراء کے منتظر اراکین ادارہ فروغ ِ فکرِ اہلبیتؑ جانووالا(بہاول پور)
رابط نمبر ۰۳۰۰۷۸۱۶۶۵۳ ۰۳۴۲۷۲۷۷۰۱۴ ۰۳۱۵۴۴۱۲۵۱۴
بسم اﷲالرحمن الرحیم
حمدو سپاس مخصوص ہے اُس معبودِبرحق کیلئے جس کی ذات اپنی یکتائی میں انتہائی بلند اور جو بے ہمتا ہوتے ہوئے بھی ہر ایک سے بہت قریب ہے۔ عزت جس کی ادائے شاہنشاہی کی ثناخواں اور عظمت جس کے اندازِ جہاں پناہی کی توصیف میں رطب اللسان ہر جگہ اس کی نظر ہر شئے سے باخبر ساری خلقت اس کی قوت و قدرت اور دلیل و حجت کے آگے گردنیں ڈالے ہوئے ہے رہے نام اﷲ کا وہ ہمیشہ سے بہت بڑا ہے اور سدا اس کی تعریف ہوتی رہے گی وہی بامِ فلک کا خالق اور صحنِ گیتی کا آفریدگارہے پاک وپاکیزہ ہے اس کی ذات وہ تمام فرشتوں کا پالنے والا اور روح الامین کابھی پروردگارہے۔
اس کی چشمِ کرم سب کو نوازتی ہے اورساری مخلوق اس کے انعام واکرام سے بہرہ مندہوتی ہے اس کی نگاہ ہر نظرکاجائزہ لیتی ہے مگرکوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ پاتی وہ بڑا فیض رساں انتہائی بردبار اور حد درجہ باوقارہے اس کا دامن رحمت ہر چیزکو اپنے سائے میں لئے ہوئے ہے اور ہر خاص و عام اس کی نعمتوں کا رہینِ احسان ہے۔ وہ نہ تو طیش میں آکر کسی کوکیفرِکردارتک پہنچانے میں جلدی کرتا ہے اور نہ کسی مجرم کو قرار واقعی سزادینے میں عجلت سے کام لیتا ہے ۔وہ سب کی نیتوں سے واقف اور چھُپے ہوئے حالات سے آگاہ ہے۔ نہ کوئی راز اس سے پوشیدہ رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خفیہ بات اس پر مشتبہ ہو سکتی ہے وہ ہر امر پر حاوی ہے ہر شئے پر غالب ہے۔ کوئی چیز اس کی طاقت سے باہر نہیں وہ ہر بات پر قادر ہے اور اس جیسی کوئی شئے نہیں جب کچھ نہ تھا اس وقت اس نے ہر چیزکی صورت گری کی وہ ہمیشہ سے ہے اور اپنی صفتِ عدل کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ اس بزرگ و دانا خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔
اس کی ہستی اس سے کہیں بلند ہے کہ کسی کی چشمِ ظاہر اس تک پہنچ سکے ‘ البتہ وہ ہر موجِ نظر کو پا لیتا ہے۔ وہ نہایت باریک بین اوربڑا واقف کار ہے۔ ہاں ‘ نہ تو کوئی آنکھوں سے دیکھ کر اس کی خوبیوں کا نقشہ کھینچ سکتا ہے اور نہ اس کے ظاہر وباطن کا حال احوال بیان کر سکتا ہے۔ پاک پروردگارکو تو بس ان ہی حقائق کے ذریعے پہچاننا ممکن ہے جنہیں خود اس نے اپنے لئے دلیلِ معرفعت قراردیا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی سچا خدا ہے جس کی پاکیزگی کے آثارسے پُور ی دنیا معموراور جس کے جلووں کی تابش سے سارا جہاں پُرنورہے۔ وہ کسی سے رائے مشورہ نہیں لیتا بلکہ اپنی منشاء سے تمام احکام نافذ کرتا ہے۔ نیز کسی امر کے تعین میں نہ اس کا کوئی شریک عمل ہے اور نہ اس کے بندو بست میں کسی طرح کا فرق و خلل ہے ۔ کیا کہنا اس کی جدت طرازیوں کا اس کی ہرتصویرآپ اپنی مثال ہے ۔ کوئی تخلیق ایسی نہیں جوکسی کے تعاون ‘ تکلف یا منصوبہ بندی کے سہارے منصہ شہود پر آئی ہو بس اس نے جس چیز کو پیدا کرنا چاہا وہ پیدا ہو گئی ۔ اور جس شئے کو عالمِ وجود میں لانے کا ارادہ کیا وہ ہویدا ہو گئی۔ چناچہ اسکی ذات تمام کمالات کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے علاوہ کوئی ہستی نہیں جس کی پرستش کی جائے خلاقِ عالم کی ہر صفتِ
حمدو سپاس مخصوص ہے اُس معبودِبرحق کیلئے جس کی ذات اپنی یکتائی میں انتہائی بلند اور جو بے ہمتا ہوتے ہوئے بھی ہر ایک سے بہت قریب ہے۔ عزت جس کی ادائے شاہنشاہی کی ثناخواں اور عظمت جس کے اندازِ جہاں پناہی کی توصیف میں رطب اللسان ہر جگہ اس کی نظر ہر شئے سے باخبر ساری خلقت اس کی قوت و قدرت اور دلیل و حجت کے آگے گردنیں ڈالے ہوئے ہے رہے نام اﷲ کا وہ ہمیشہ سے بہت بڑا ہے اور سدا اس کی تعریف ہوتی رہے گی وہی بامِ فلک کا خالق اور صحنِ گیتی کا آفریدگارہے پاک وپاکیزہ ہے اس کی ذات وہ تمام فرشتوں کا پالنے والا اور روح الامین کابھی پروردگارہے۔
اس کی چشمِ کرم سب کو نوازتی ہے اورساری مخلوق اس کے انعام واکرام سے بہرہ مندہوتی ہے اس کی نگاہ ہر نظرکاجائزہ لیتی ہے مگرکوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ پاتی وہ بڑا فیض رساں انتہائی بردبار اور حد درجہ باوقارہے اس کا دامن رحمت ہر چیزکو اپنے سائے میں لئے ہوئے ہے اور ہر خاص و عام اس کی نعمتوں کا رہینِ احسان ہے۔ وہ نہ تو طیش میں آکر کسی کوکیفرِکردارتک پہنچانے میں جلدی کرتا ہے اور نہ کسی مجرم کو قرار واقعی سزادینے میں عجلت سے کام لیتا ہے ۔وہ سب کی نیتوں سے واقف اور چھُپے ہوئے حالات سے آگاہ ہے۔ نہ کوئی راز اس سے پوشیدہ رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خفیہ بات اس پر مشتبہ ہو سکتی ہے وہ ہر امر پر حاوی ہے ہر شئے پر غالب ہے۔ کوئی چیز اس کی طاقت سے باہر نہیں وہ ہر بات پر قادر ہے اور اس جیسی کوئی شئے نہیں جب کچھ نہ تھا اس وقت اس نے ہر چیزکی صورت گری کی وہ ہمیشہ سے ہے اور اپنی صفتِ عدل کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ اس بزرگ و دانا خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔
اس کی ہستی اس سے کہیں بلند ہے کہ کسی کی چشمِ ظاہر اس تک پہنچ سکے ‘ البتہ وہ ہر موجِ نظر کو پا لیتا ہے۔ وہ نہایت باریک بین اوربڑا واقف کار ہے۔ ہاں ‘ نہ تو کوئی آنکھوں سے دیکھ کر اس کی خوبیوں کا نقشہ کھینچ سکتا ہے اور نہ اس کے ظاہر وباطن کا حال احوال بیان کر سکتا ہے۔ پاک پروردگارکو تو بس ان ہی حقائق کے ذریعے پہچاننا ممکن ہے جنہیں خود اس نے اپنے لئے دلیلِ معرفعت قراردیا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی سچا خدا ہے جس کی پاکیزگی کے آثارسے پُور ی دنیا معموراور جس کے جلووں کی تابش سے سارا جہاں پُرنورہے۔ وہ کسی سے رائے مشورہ نہیں لیتا بلکہ اپنی منشاء سے تمام احکام نافذ کرتا ہے۔ نیز کسی امر کے تعین میں نہ اس کا کوئی شریک عمل ہے اور نہ اس کے بندو بست میں کسی طرح کا فرق و خلل ہے ۔ کیا کہنا اس کی جدت طرازیوں کا اس کی ہرتصویرآپ اپنی مثال ہے ۔ کوئی تخلیق ایسی نہیں جوکسی کے تعاون ‘ تکلف یا منصوبہ بندی کے سہارے منصہ شہود پر آئی ہو بس اس نے جس چیز کو پیدا کرنا چاہا وہ پیدا ہو گئی ۔ اور جس شئے کو عالمِ وجود میں لانے کا ارادہ کیا وہ ہویدا ہو گئی۔ چناچہ اسکی ذات تمام کمالات کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے علاوہ کوئی ہستی نہیں جس کی پرستش کی جائے خلاقِ عالم کی ہر صفتِ
کمال مہارت کا بہترین نمونہ ہے ۔ اس کی دین حُسن کرم کی سب سے اعلیٰ مثال ہے۔ وہ ایسا داد گستر ہے جس کے بارے میں ظلم و ستم گری کا خیال تک نہیں آسکتا۔ وہ سب سے بڑا کریم ہے اور آخرکار تمام معاملات اسی کی بارگاہ میں پیش ہونگے‘ کہ ہر چیزاس کی قدرتِ قاہرہ کے آگے سرنگوں‘ اور ہر شئے اس کے جلال و ہیبت کے آگے سجدہ ریز ہے۔
وہ دنیا جہاں کا مالک اور آسمانوں کا خالق ہے۔ سورج اس کے حکم کے تابع ‘ چاند اس کا اطاعت گذار اور ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت تک اپنا کام انجام دیتا رہے گا۔ وہی آفریدگارِمطلق بڑی تیزی اور تسلسل کے ساتھ کبھی دن کے مکھڑے کورات کے پردے میں چھُپا دیتا ہے‘ اور گاہے حجلہ شب کو روز روشن کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔ وہ سرکشی دکھانے والے ہر زور آزما اوراکڑنے والے ہر شیطان کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس خُدائے یکتا کا نہ کوئی مقابل ہے نہ نظیر۔وہ ایک ہے بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے نہ اس نے کسی سے جنم لیا ہے اور کوئی اس کے برابر کا بھی نہیں وہ معبودِ یگانہ ہے اور بڑے مرتبے کا پروردگار ہے۔ وہ اپنے ہر ارادے کو پورا کرتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کرکے رہتا ہے ۔ ہر چیزکی حقیقت سے واقف اور تمام اشیاء کی کمیت و کیفیت سے آگاہ ہے۔
وہی موت کا قانون نافذ کرتا ہے ‘ اور وہی زندگی کی خلعت بھی بخشتا ہے فقرو تونگری بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اسی طرح ہنسانا اور رُلانابھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔کسی کو قریب کرلیتا ہے کسی کو دور پھینک دیتا ہے۔ کبھی اپنی عطا کو روک لیتا ہے اور کسی وقت ہُن برسانے لگتا ہے۔ اقتدارِاعلیٰ صرف اسی کو حاصل اور حمدو ستائش اسی کی ذات کے لئے ہے۔ اوراسی کو ہر چیز پر اختیار ہے وہ بزرگ و برترہے بخشنے والا ہے ۔
دعائیں قبول کرتا ہے خوب کرم فرماتا ہے بہت دیتا ہے پھر نفس نفس کا حساب رکھتا ہے اور جن ہوں یا انسان سب کو پا لتا ہے ۔نیز اس کے لئے کوئی کام مشکل نہیں۔ نہ وہ کسی فریادی کی آہ و زاری سے ملول ہوتا ہے اور نہ کسی سوالی کا اصرار اسے کبیدہ خاطرہوتا ہے ۔ وہی اچھے لوگوں کا محافظ ‘ اور اپنے نیک بندوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ مومنوں کا مولا ہے۔
اچھا زمانہ ہو یا کڑا وقت ‘ خوش حالی کا دور ہو یا مشکلوں کا ہنگام ‘ بہر کیف مخلوق کو اس کا سپاس گذار ہونا چاہیے ہر حالت میں وہ حمد کا سزاوار ہے۔ میں اس کی ذات پر اس کے ملائکہ پر اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اس کے حکم کا تابع اور اس کی رضا جوئی میں ہر لمحہ پیش پیش رہتا ہوں پھر اطاعت شعاری کا خیال اور سزاکا احساس چونکہ ہمیشہ دامن تھامے رہتا ہے اس لئے دل و جان سے اس کی مشیت کے آگے سرِ تسلیم خم رکھتا ہوں کیونکہ وہ ایسا معبود ہے جسکی سرزنش سے نہ کوئی محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ اس کی طرف اور نہ اس کی طرف سے کسی کو ظلم و تعدی کا اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے۔ مجھے اس حقیقت کا اقرار ہے کہ میں اس کا بندہ ہوں اور اس کے پروردگار ہونے کا گواہ ۔ساتھ ہی اس نے وحی کے ذریعے مجھے جو حکم دیا ہے اسے بجا لاتا ہوں کیونکہ اگرمیں نے فرضِ رسالت ادا نہیں کیا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں اس کے ناقابل مدافعت عذاب کا ہدف نہ بن جاؤں ‘ وہی خدا ہے اور سوائے اس کے کوئی معبود نہیں اس نے مجھے بتا دیا ہے کہ اگر میں اس فرمان کی تبلیغ نہیں کرونگاجو اس نے مجھ پر نازل فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ گویا میں نے رسالت کا کوئی فریضہ ہی نہیں انجام دیا۔ نیز اس نے مجھے مخالفوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی ضمانت بھی دی ہے۔اور یقیناًوہ میرے لیے کافی ہے اور وہ میرا رب کریم ہے ۔ہاں اس نے مجھ پر یہ وحی نازل فرمائی بسم اﷲالرحمن الرحیم۔ اے رسول تمہارے رب کی جانب سے ( علی ؑ کے بارے میں) جو نازل ہُوا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو گویا تم نے فرضِ رسالت کی ادائیگی نہیں کی ‘ اور اﷲ تم کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ( سورہ مائدہ ۶۷)لوگو میں نے فر ضِ رسالت کی انجام دہی میں کبھی کوتاہی نہیں کی اور لو اب میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب بیان کرتا ہوں۔ جبرئیل ؑ تین مرتبہ میرے پاس آئے خدا کا سلام پہنچایا بے شک اس کی ذات امن و عافیت کا سر چشمہ ہے۔اس کے بعدامین وحی نے مجھ سے کہا کہ میں اس مجمع عام میں کھڑے ہوکرہر سفیدو سیاہ کویہ بتا دوں کہ ’’ علی ؑ ابن ابی طالب میرے بھائی میرے وصی میرے خلیفہ اور میرے بعد ساری خلقت کے امام ہیں میری سرکار میں انہیں وہی مقام حاصل ہے جو
وہ دنیا جہاں کا مالک اور آسمانوں کا خالق ہے۔ سورج اس کے حکم کے تابع ‘ چاند اس کا اطاعت گذار اور ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت تک اپنا کام انجام دیتا رہے گا۔ وہی آفریدگارِمطلق بڑی تیزی اور تسلسل کے ساتھ کبھی دن کے مکھڑے کورات کے پردے میں چھُپا دیتا ہے‘ اور گاہے حجلہ شب کو روز روشن کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔ وہ سرکشی دکھانے والے ہر زور آزما اوراکڑنے والے ہر شیطان کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس خُدائے یکتا کا نہ کوئی مقابل ہے نہ نظیر۔وہ ایک ہے بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے نہ اس نے کسی سے جنم لیا ہے اور کوئی اس کے برابر کا بھی نہیں وہ معبودِ یگانہ ہے اور بڑے مرتبے کا پروردگار ہے۔ وہ اپنے ہر ارادے کو پورا کرتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کرکے رہتا ہے ۔ ہر چیزکی حقیقت سے واقف اور تمام اشیاء کی کمیت و کیفیت سے آگاہ ہے۔
وہی موت کا قانون نافذ کرتا ہے ‘ اور وہی زندگی کی خلعت بھی بخشتا ہے فقرو تونگری بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اسی طرح ہنسانا اور رُلانابھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔کسی کو قریب کرلیتا ہے کسی کو دور پھینک دیتا ہے۔ کبھی اپنی عطا کو روک لیتا ہے اور کسی وقت ہُن برسانے لگتا ہے۔ اقتدارِاعلیٰ صرف اسی کو حاصل اور حمدو ستائش اسی کی ذات کے لئے ہے۔ اوراسی کو ہر چیز پر اختیار ہے وہ بزرگ و برترہے بخشنے والا ہے ۔
دعائیں قبول کرتا ہے خوب کرم فرماتا ہے بہت دیتا ہے پھر نفس نفس کا حساب رکھتا ہے اور جن ہوں یا انسان سب کو پا لتا ہے ۔نیز اس کے لئے کوئی کام مشکل نہیں۔ نہ وہ کسی فریادی کی آہ و زاری سے ملول ہوتا ہے اور نہ کسی سوالی کا اصرار اسے کبیدہ خاطرہوتا ہے ۔ وہی اچھے لوگوں کا محافظ ‘ اور اپنے نیک بندوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ مومنوں کا مولا ہے۔
اچھا زمانہ ہو یا کڑا وقت ‘ خوش حالی کا دور ہو یا مشکلوں کا ہنگام ‘ بہر کیف مخلوق کو اس کا سپاس گذار ہونا چاہیے ہر حالت میں وہ حمد کا سزاوار ہے۔ میں اس کی ذات پر اس کے ملائکہ پر اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اس کے حکم کا تابع اور اس کی رضا جوئی میں ہر لمحہ پیش پیش رہتا ہوں پھر اطاعت شعاری کا خیال اور سزاکا احساس چونکہ ہمیشہ دامن تھامے رہتا ہے اس لئے دل و جان سے اس کی مشیت کے آگے سرِ تسلیم خم رکھتا ہوں کیونکہ وہ ایسا معبود ہے جسکی سرزنش سے نہ کوئی محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ اس کی طرف اور نہ اس کی طرف سے کسی کو ظلم و تعدی کا اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے۔ مجھے اس حقیقت کا اقرار ہے کہ میں اس کا بندہ ہوں اور اس کے پروردگار ہونے کا گواہ ۔ساتھ ہی اس نے وحی کے ذریعے مجھے جو حکم دیا ہے اسے بجا لاتا ہوں کیونکہ اگرمیں نے فرضِ رسالت ادا نہیں کیا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں اس کے ناقابل مدافعت عذاب کا ہدف نہ بن جاؤں ‘ وہی خدا ہے اور سوائے اس کے کوئی معبود نہیں اس نے مجھے بتا دیا ہے کہ اگر میں اس فرمان کی تبلیغ نہیں کرونگاجو اس نے مجھ پر نازل فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ گویا میں نے رسالت کا کوئی فریضہ ہی نہیں انجام دیا۔ نیز اس نے مجھے مخالفوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی ضمانت بھی دی ہے۔اور یقیناًوہ میرے لیے کافی ہے اور وہ میرا رب کریم ہے ۔ہاں اس نے مجھ پر یہ وحی نازل فرمائی بسم اﷲالرحمن الرحیم۔ اے رسول تمہارے رب کی جانب سے ( علی ؑ کے بارے میں) جو نازل ہُوا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو گویا تم نے فرضِ رسالت کی ادائیگی نہیں کی ‘ اور اﷲ تم کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ( سورہ مائدہ ۶۷)لوگو میں نے فر ضِ رسالت کی انجام دہی میں کبھی کوتاہی نہیں کی اور لو اب میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب بیان کرتا ہوں۔ جبرئیل ؑ تین مرتبہ میرے پاس آئے خدا کا سلام پہنچایا بے شک اس کی ذات امن و عافیت کا سر چشمہ ہے۔اس کے بعدامین وحی نے مجھ سے کہا کہ میں اس مجمع عام میں کھڑے ہوکرہر سفیدو سیاہ کویہ بتا دوں کہ ’’ علی ؑ ابن ابی طالب میرے بھائی میرے وصی میرے خلیفہ اور میرے بعد ساری خلقت کے امام ہیں میری سرکار میں انہیں وہی مقام حاصل ہے جو
ہارون ؑ کو موُسیٰ ؑ کے اقتدارمیں حاصل تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اﷲ اور اس کے رسولؐ کے بعد بس وہی تمہارے مولا ہیں‘‘۔اس سلسلے میں خداوندِعالم نے مجھ پر قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی ہے ’’ یقیناًتمہارا آقاصرف اﷲ اور اس کا رسولؐہے نیز وہ لوگ جنہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں ‘‘ (مائدہ۵۵)
علی ؑ ابن ابی طالب نے نماز قائم کی اور حالت رکوع میں زکوٰۃ بھی دی اور ان تمام حالات میں صرف خدا ہی ان کا مقصودو مطلوب رہا۔حالات کے پیشِ نظر جبرئیل سے میں نے کہا بھی تھا کہ کیا بارگاہِ احدیت میں یہ التجا کی جا سکتی ہے کہ مجھے اس فرض کی انجام دہی سے معاف رکھا جائے ؟ کیونکہ میںؐ متقین کی قلت منافقین کی کثرت مجرموں کی فریب کاریوں اسلام کا تمسخرکرنیوالوں کی حیلہ سازیوں سے واقف تھا جن کے متعلق قرآن کا بیان ہے کہ ’’ وہ جو کچھ زبان سے کہتے ہیں وہ ان کے د ل میں نہیں ہوتا اور خیال کرتے ہیں کہ ہ معمولی سی بات ہے حالانکہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔ ‘‘ (فتح ۱۱)
نیز ان لوگوں نے کئی بار مجھے بڑادُکھ پہنچایا یہاں تک کہ میرا نام کان ’’ رکھ دیا ‘‘ اور یہ صرف اس لئے کہ علی ؑ ابن ابی طالب ہر وقت میرے ساتھ رہتے تھے اور ان پر ہی میری توجہ مرکوزرہتی تھی۔ چنانچہ اس ضمن میں پرور دگارعالم کا ارشادہواکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ہمارے رسولؐ کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ’’ کان ہی کان ‘‘ہیں اے رسولؐ تم کہہ دوکہ ہاں ’’ کان ‘‘ تو ہیں مگراچھی باتیں سننے والے کان ہیں کیونکہ خدا کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں اورمومنین کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ( سورہ توبہ ۶۱)
میں ان سب کے نام بتا سکتا ہوں انہیں دکھا سکتا ہوں ان کی نشاندہی کر سکتا ہوں لیکن میں نے ان کے معاملہ میں عفووکرم سے کام لیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جب تک اﷲ کے اس پیغام کو نہیں پہنچاؤنگا جو مجھ پر نازل ہوا اس وقت تک مجھے اپنے معبودبرحق سے خوشنودی کا پروانہ نہیں مل سکتا۔ اس کے بعد میں حضورؐ نے آیۃ مبارکہ’’ یا ایھا ا لرسول بلغ ما انزل الیک من ربک۔۔۔ پڑھ کر سنائی اے نبیؐ تمہارے پالنے والے کی طرف سے (علی ؑ کے متعلق) جو تمہیں حکم ملا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو۔ اور اگریہ نہیں کیا توجانو تم نے رسالت کا فریضہ ہی نہیں انجام دیا۔ نیز اﷲتمہیں لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔ ( مائدہ۶۷)
بعد ازاں ارشاد فرمایا لوگو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ولایت و امامت کے منصب پر علی ؑ کا تقرر خدا کی جانب سے ہوا ہے مہاجر ہوں انصار ہوں یا تابعین نیز شہری ہوں کہ صحرا نشین عجم ہوں کہ عرب آزاد ہوں یا غلام چھوٹے ہوں یا بڑے سفید ہوں یا سیاہ غرضکہ ہر ایک پر اور ہر اس شخص پر جو توحیدپرست ہو ان کی اطاعت فرض ہے۔ علی ؑ کا ہر فیصلہ قطعی ان کا ہر بیان درست اوران کے ہر حکم کو قانونی طو پر موثر سمجھنا چاہیے جو ان کی مخالفت کریگا وہ مردود ہوگا اور ان کی پیروی کرنے والے رحمت ایزدی کے مستحق قرار پائیں گے۔
نیز جو ان کی تصدیق کریں گے اور جو ان کی باتوں پر کان دھریں گے ان کی تابعداری کرینگے خداوندِکریم انہیں بھی بخش دے گا۔ لوگو یہ آخری اجتماع ہے جس سے اس وقت میں خطاب کر رہا ہوں لہذاتم میری گفتگو سنو اور اپنے پروردگار کے مطیع و فرماں بردار بنو خداوندِ عزوجل ہی تمہارا حاکم اورتمہارا معبود ہے۔ اس کے بعد اس کا رسولؐ کے بعد اﷲرب العالمین کے حکم سے علی ؑ تمہارا ولی اور امام ہے۔
نیز اس کے بعد سلسلہ امامت قیامت تک علی ؑ کی اولادسے میری ذریت میں برقراررہے گا۔ہاں روزقیامت تک جس دن کہ تمہیں اﷲ اور اس کے رسولؐ کا سامناکرنا پڑیگا۔ یاد رکھو حلالِ خداکے سواکوئی چیزحلال نہیں اورجس چیزکو اﷲ نے حرام قراردیا ہے بس وہی حرام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پروردگارعالم نے مجھے حلال و حرام کے جملہ قواعدوضوابط سے آگاہ فرمادیا ہے۔اور میں نے تمام فیصلے کتابِ خدااور حلت و حرمت کے خدائی قانون کی روشنی میں کئے ہیں : نیزمجھے علم وعرفان حاصل ہوا میں نے اس کی تعلیم علی ؑ ابن ابیطالب ؑ کو ضرور دی۔
لوگو کوئی علم ایسا نہیں جو خداوندِعالم نے مجھے نہ دیا ہو پھردانش و آگہی کا یہ ساراذخیرہ جو اﷲ نے مجھے عطا کیا تھا ’ اسے میں نے امام المتقین علی ؑ ابن
علی ؑ ابن ابی طالب نے نماز قائم کی اور حالت رکوع میں زکوٰۃ بھی دی اور ان تمام حالات میں صرف خدا ہی ان کا مقصودو مطلوب رہا۔حالات کے پیشِ نظر جبرئیل سے میں نے کہا بھی تھا کہ کیا بارگاہِ احدیت میں یہ التجا کی جا سکتی ہے کہ مجھے اس فرض کی انجام دہی سے معاف رکھا جائے ؟ کیونکہ میںؐ متقین کی قلت منافقین کی کثرت مجرموں کی فریب کاریوں اسلام کا تمسخرکرنیوالوں کی حیلہ سازیوں سے واقف تھا جن کے متعلق قرآن کا بیان ہے کہ ’’ وہ جو کچھ زبان سے کہتے ہیں وہ ان کے د ل میں نہیں ہوتا اور خیال کرتے ہیں کہ ہ معمولی سی بات ہے حالانکہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔ ‘‘ (فتح ۱۱)
نیز ان لوگوں نے کئی بار مجھے بڑادُکھ پہنچایا یہاں تک کہ میرا نام کان ’’ رکھ دیا ‘‘ اور یہ صرف اس لئے کہ علی ؑ ابن ابی طالب ہر وقت میرے ساتھ رہتے تھے اور ان پر ہی میری توجہ مرکوزرہتی تھی۔ چنانچہ اس ضمن میں پرور دگارعالم کا ارشادہواکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ہمارے رسولؐ کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ’’ کان ہی کان ‘‘ہیں اے رسولؐ تم کہہ دوکہ ہاں ’’ کان ‘‘ تو ہیں مگراچھی باتیں سننے والے کان ہیں کیونکہ خدا کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں اورمومنین کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ( سورہ توبہ ۶۱)
میں ان سب کے نام بتا سکتا ہوں انہیں دکھا سکتا ہوں ان کی نشاندہی کر سکتا ہوں لیکن میں نے ان کے معاملہ میں عفووکرم سے کام لیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جب تک اﷲ کے اس پیغام کو نہیں پہنچاؤنگا جو مجھ پر نازل ہوا اس وقت تک مجھے اپنے معبودبرحق سے خوشنودی کا پروانہ نہیں مل سکتا۔ اس کے بعد میں حضورؐ نے آیۃ مبارکہ’’ یا ایھا ا لرسول بلغ ما انزل الیک من ربک۔۔۔ پڑھ کر سنائی اے نبیؐ تمہارے پالنے والے کی طرف سے (علی ؑ کے متعلق) جو تمہیں حکم ملا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو۔ اور اگریہ نہیں کیا توجانو تم نے رسالت کا فریضہ ہی نہیں انجام دیا۔ نیز اﷲتمہیں لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔ ( مائدہ۶۷)
بعد ازاں ارشاد فرمایا لوگو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ولایت و امامت کے منصب پر علی ؑ کا تقرر خدا کی جانب سے ہوا ہے مہاجر ہوں انصار ہوں یا تابعین نیز شہری ہوں کہ صحرا نشین عجم ہوں کہ عرب آزاد ہوں یا غلام چھوٹے ہوں یا بڑے سفید ہوں یا سیاہ غرضکہ ہر ایک پر اور ہر اس شخص پر جو توحیدپرست ہو ان کی اطاعت فرض ہے۔ علی ؑ کا ہر فیصلہ قطعی ان کا ہر بیان درست اوران کے ہر حکم کو قانونی طو پر موثر سمجھنا چاہیے جو ان کی مخالفت کریگا وہ مردود ہوگا اور ان کی پیروی کرنے والے رحمت ایزدی کے مستحق قرار پائیں گے۔
نیز جو ان کی تصدیق کریں گے اور جو ان کی باتوں پر کان دھریں گے ان کی تابعداری کرینگے خداوندِکریم انہیں بھی بخش دے گا۔ لوگو یہ آخری اجتماع ہے جس سے اس وقت میں خطاب کر رہا ہوں لہذاتم میری گفتگو سنو اور اپنے پروردگار کے مطیع و فرماں بردار بنو خداوندِ عزوجل ہی تمہارا حاکم اورتمہارا معبود ہے۔ اس کے بعد اس کا رسولؐ کے بعد اﷲرب العالمین کے حکم سے علی ؑ تمہارا ولی اور امام ہے۔
نیز اس کے بعد سلسلہ امامت قیامت تک علی ؑ کی اولادسے میری ذریت میں برقراررہے گا۔ہاں روزقیامت تک جس دن کہ تمہیں اﷲ اور اس کے رسولؐ کا سامناکرنا پڑیگا۔ یاد رکھو حلالِ خداکے سواکوئی چیزحلال نہیں اورجس چیزکو اﷲ نے حرام قراردیا ہے بس وہی حرام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پروردگارعالم نے مجھے حلال و حرام کے جملہ قواعدوضوابط سے آگاہ فرمادیا ہے۔اور میں نے تمام فیصلے کتابِ خدااور حلت و حرمت کے خدائی قانون کی روشنی میں کئے ہیں : نیزمجھے علم وعرفان حاصل ہوا میں نے اس کی تعلیم علی ؑ ابن ابیطالب ؑ کو ضرور دی۔
لوگو کوئی علم ایسا نہیں جو خداوندِعالم نے مجھے نہ دیا ہو پھردانش و آگہی کا یہ ساراذخیرہ جو اﷲ نے مجھے عطا کیا تھا ’ اسے میں نے امام المتقین علی ؑ ابن
بیطالب کے حوالے کردیا بے شک وہی امام مُبین ہیں۔ ایہا الناس ان سے ہٹ کر تم گم کردہ راہ نہ بن جانا نہ ان سے دوری اختیار کرنااور نہ ان کی ولایت کے اقرار سے پہلو بچانا ’ کیونکہ علی ؑ ہی وہ ہستی ہیں جو حق پر عمل کرکے سچائی کی راہ دکھائیں گے۔ اورباطل کو ملیا میٹ کر کے لوگوں کو بے راہ روی سے بچائیں گے حق کے بارے میں خواہ کوئی ملامت کرے یا بُرا بھلا کہے اس سے ان کے فرض شناسی کے جذبے پر کوئی اثر نہیں پڑتا علاوہ ازیں یہ وہ پہلے شخص ہیں جو اﷲ اوراس کے رسولؐ پر ایمان لائے’ انہوں نے پیغمبرِؐ خداپر اپنی جان نچھاور کر دی۔ علی ؑ ہی کی ذات ایسی ہے جس نے رسول اﷲ کے ساتھ اُس وقت خدا کی عبادت کی جب اس دورِ تاریخ کے جتنے بھی مرد تھے ان میں سے کوئی بھی نبیؐ کے ساتھ فریضہ عبادت بجا لانے کو تیار نہ تھا۔لوگو تم علی ؑ کی فضیلت مانو کیونکہ انہیں خدا نے فضیلت دی ہے۔ اور انہیں قبول کرو اس لئے کہ پروردگارِعالم ہی نے انکاتقررفرمایاہے۔( ایہا النا س) علی ؑ اﷲ کی جانب سے امام ہیں اور جو کوئی ان کی ولایت کا منکر ہوگا تو نہ تو اُس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ حق اس کی مغفرت کرے گا۔ ہاں یہ طے ہے کہ پروردگارِعالم نے علی ؑ کے بارے میں جو حکم دیا ہے’ اس کی خلاف ورزی کرنیوالوں کے ساتھ داورِمحشرکا یہی سلوک ہوگا۔ وہ انہیں بدسے بد تراورنہ ختم ہونے والے عذاب میں مبتلاء فرمائے گا۔
پس اس معاملے میں ڈرتے رہو دیکھو کہیں ان کی مخالفت مول لے کرآگ میں جلنے کا سامان نہ کر لو اوروہ بھی ایسی آگ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں اور جو حق کا انکارکرنے والوں کے لئے دہکائی گئی ہو ( سورہ بقرہ ۲۴) ایہاالناس انبیاء ما سبق کو میری ہی بشارت دی گئی تھی۔ میں تمام پیغمبروں اورجملہ فرستادگان خدا کا خاتم نیز زمین وآسمان کی ساری خلقت کے لئے اﷲ کی حجت ہوں ۔ اس حقیقت میں جو ذراسا بھی شبہ کرے گا وہ پہلے والے عہدِ جاہلیت کے کافروں جیسا کافرہوگا۔اور اسی طرح جو میری کسی بات کے کسی جزو میں ذرہ بھر شک لائے گااس کا شمارانہیں میں ہوگا۔ جو تمام باتوں میں ڈانو ں ڈول رہنے والوں کی جگہ جہنم ہے۔
لوگو خدا کی دین اوربڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس فضیلت سے سرفراز فرمایا اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں شامِ ابد تک بس وہی حمد کا سزاوار ہے اور ہر حال میں ہمیشہ سپاس کا مستحق ہے۔ ایہاالناس علی ؑ کے فضل و کمال کا اعتراف کرو کیونکہ میرے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ حُسن وخوبی کے مالک وہی ہیں یاد رکھو پاک پروردگار ہمارے ہی طفیل میں تم کو روزی دیتا ہے اور ہماری ہی برکت سے یہ دنیا آباد ہے۔ ملعون و مغضوب ہے۔ لعنت کا مارا ہے اور زیرِعتاب ہے۔ وہ شخص جو میری اس بات کی تائید کرنے کے بجائے اسکی تردید کرے کیونکہ جبرئیل نے خدا کی جانب سے مجھے یہ خبر دی ہے ’’ جو شخص علی ؑ سے بیر باندھے گا اور ان کے اقتدارو اختیار کو تسلیم نہیں کرے گا وہ میری نفرین اور میرے غضب کاسزاو ار ہوگا۔ لہذا ہر آدمی کا فرض ہے کہ وہ اپنے توشہ آخرت پر نظررکھے ‘‘ لوگو تم اﷲ سے ڈرو کہ کہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو جائے اور جمنے کے بعد کہیں پیرڈگمگانے نہ لگیںیقیناًخداوندِعالم تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے ‘‘ (سورہ حشر ۱۸)
لوگو علی ؑ جنب اﷲ (وسیلہ تقرب الہیٰ)ہیں جسکی مخالفت کرنے والے کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن کہیں گے کہ ’’ واحسرت و دردا ہماری اس کوتاہی پر جو ہم نے جنب اﷲ کے بارے میں روا رکھی ‘’ ( سورہ زمر ۵۶)لوگوقرآن میں غور غور و فکر سے کام لو ۔ اس کی آیتوں کو سمجھو محکمات پر نظر رکھو متشابہات کی پیروی نہ کرو قسم بخدا اس دنیا میں اور کوئی ایسا نہیں جو ان آیتوں کی توضیح و تشریح کرسکے جو برائیوں کی روک تھام اور اچھائیوں کی اشاعت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں۔سوائے اس شخص کے جس کے بازو تھام کر میں بلند کر رہا ہوں اور جس کے بارے میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’’ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ مولا ہیں اور یہ علی ؑ ابن ابی طالب میرے بھائی اور میرے جانشین ہیں نیز جن کی پیروی کرنے کا فرمان پہنچانے کے لئے اﷲ نے مجھے مامور کیا ہے لوگو علی ؑ اورمیری پاک ذریت ہی ثقلِ اصغر ہیں ۔ اور قرآن ثقلِ اکبر ہے یہ ایک دوسرے کی خبر دینے والے بھی ہیں۔ نیز ایک دوسرے سے اس وقت تک الگ نہیں ہوں گے جب تک میرے پاس حوضِ کو ثر پر
پس اس معاملے میں ڈرتے رہو دیکھو کہیں ان کی مخالفت مول لے کرآگ میں جلنے کا سامان نہ کر لو اوروہ بھی ایسی آگ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں اور جو حق کا انکارکرنے والوں کے لئے دہکائی گئی ہو ( سورہ بقرہ ۲۴) ایہاالناس انبیاء ما سبق کو میری ہی بشارت دی گئی تھی۔ میں تمام پیغمبروں اورجملہ فرستادگان خدا کا خاتم نیز زمین وآسمان کی ساری خلقت کے لئے اﷲ کی حجت ہوں ۔ اس حقیقت میں جو ذراسا بھی شبہ کرے گا وہ پہلے والے عہدِ جاہلیت کے کافروں جیسا کافرہوگا۔اور اسی طرح جو میری کسی بات کے کسی جزو میں ذرہ بھر شک لائے گااس کا شمارانہیں میں ہوگا۔ جو تمام باتوں میں ڈانو ں ڈول رہنے والوں کی جگہ جہنم ہے۔
لوگو خدا کی دین اوربڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس فضیلت سے سرفراز فرمایا اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں شامِ ابد تک بس وہی حمد کا سزاوار ہے اور ہر حال میں ہمیشہ سپاس کا مستحق ہے۔ ایہاالناس علی ؑ کے فضل و کمال کا اعتراف کرو کیونکہ میرے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ حُسن وخوبی کے مالک وہی ہیں یاد رکھو پاک پروردگار ہمارے ہی طفیل میں تم کو روزی دیتا ہے اور ہماری ہی برکت سے یہ دنیا آباد ہے۔ ملعون و مغضوب ہے۔ لعنت کا مارا ہے اور زیرِعتاب ہے۔ وہ شخص جو میری اس بات کی تائید کرنے کے بجائے اسکی تردید کرے کیونکہ جبرئیل نے خدا کی جانب سے مجھے یہ خبر دی ہے ’’ جو شخص علی ؑ سے بیر باندھے گا اور ان کے اقتدارو اختیار کو تسلیم نہیں کرے گا وہ میری نفرین اور میرے غضب کاسزاو ار ہوگا۔ لہذا ہر آدمی کا فرض ہے کہ وہ اپنے توشہ آخرت پر نظررکھے ‘‘ لوگو تم اﷲ سے ڈرو کہ کہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو جائے اور جمنے کے بعد کہیں پیرڈگمگانے نہ لگیںیقیناًخداوندِعالم تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے ‘‘ (سورہ حشر ۱۸)
لوگو علی ؑ جنب اﷲ (وسیلہ تقرب الہیٰ)ہیں جسکی مخالفت کرنے والے کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن کہیں گے کہ ’’ واحسرت و دردا ہماری اس کوتاہی پر جو ہم نے جنب اﷲ کے بارے میں روا رکھی ‘’ ( سورہ زمر ۵۶)لوگوقرآن میں غور غور و فکر سے کام لو ۔ اس کی آیتوں کو سمجھو محکمات پر نظر رکھو متشابہات کی پیروی نہ کرو قسم بخدا اس دنیا میں اور کوئی ایسا نہیں جو ان آیتوں کی توضیح و تشریح کرسکے جو برائیوں کی روک تھام اور اچھائیوں کی اشاعت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں۔سوائے اس شخص کے جس کے بازو تھام کر میں بلند کر رہا ہوں اور جس کے بارے میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’’ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ مولا ہیں اور یہ علی ؑ ابن ابی طالب میرے بھائی اور میرے جانشین ہیں نیز جن کی پیروی کرنے کا فرمان پہنچانے کے لئے اﷲ نے مجھے مامور کیا ہے لوگو علی ؑ اورمیری پاک ذریت ہی ثقلِ اصغر ہیں ۔ اور قرآن ثقلِ اکبر ہے یہ ایک دوسرے کی خبر دینے والے بھی ہیں۔ نیز ایک دوسرے سے اس وقت تک الگ نہیں ہوں گے جب تک میرے پاس حوضِ کو ثر پر
نہ پہنچ جائیں۔
گے۔ آدمؑ کا زمین پر آناصرف ترک اوُلیٰ کا نتیجہ تھاحالانکہ وہ خدا کے برگزیدہ بندے تھے۔ اب بتاؤاگرتم نے خداکے احکامات کی صریحی خلاف ورزی کی تو پھر تمہارا کیا حشر ہوگا؟حالانکہ تم تم ہی ہو’’ عیاں راچہ بیاں‘’تمہیں میں سے آخروہ لوگ بھی ہیں جو خدا کے دشمن ہیں۔ ہاں وہ بد نصیب ہی ہوگا جو علی ؑ سے بیر باندھے گا۔ علی ؑ کے دوستوں کی نشانی تو یہ ہے کہ وہ پرہیزگار ہونگے‘ مومن ہوں گے’ مخلص ہوں گے۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہبسم اﷲالرحمن الرحیم والعصر ان الانسان لفی خسر۔۔۔تاآخر۔۔۔ علی ؑ ہی کیلیے نازل ہوا۔ لوگو رب العزت گواہ ہے میں نے نے فرضِ رسالتؐ ادا کر دیا ہے اور رسول ؐکابس یہی کام ہے کہ وہ پیغام پہنچا دے۔(مائدہ ۹۹)لوگو خُدا سے جس طرح ڈرنا چاہییے
ا س طرح ڈرو اور مرتے دم تک اسلام سے وابستہ رہو۔ (آل عمران ۱۳۲)لوگو اﷲ اس کے رسولؐ اوراُس نور پرجو اس کے ساتھ ساتھ آیا ہے ایمان لے آؤ مگراس سے پہلے کہ خُدا کچھ چہرے بگاڑ کر پیچھے کی طرف پھیر دے۔ (نساء۴۷)لوگومعبودمطلق نے اپنے خاص نور کو پہلے مجھ میں سمویا پھر علی ؑ اس کے مرکز بنے اور اس کے بعد قائم آلِ محمدؐ(مہدی ؑ منتظر) وہ ہیں جو خدا کا حق لیں گے اور ہمارے بھی ہر حق کو حاصل کرینگے کیونکہ پاک پروردگار نے ہمیں’ کوتاہی کرنیوالوں’ دشمنی برتنے والوں ’مخالفت پر اترآنے والوں اور ان کے علاوہ خیانت کاروں’ جفا کاروں’ گناہ گاروں نیزدنیا بھر کے جفاشعاروں پر حجت قرار دیا ہے‘ لوگومیں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ میں اﷲ کا رسولؐ ہوں اور مجھ سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ لہذااگر میں دنیا سے چل بسوںیا قتل کر ڈالا جاؤں تو تم الٹے پیروں پلٹ جاؤ گے اور جو اس طرح الٹے پاؤں پھرے گا (یعنی دین کا دامن چھوڑ دے گا)وہ خدا کاکچھ نہیں بگاڑے گا۔اور پروردگار عالم عنقریب شکر گزاروں کو جزائے خیردے گا۔
اور دیکھو صبر وشکر کو جن کی صفت قراردیا گیا ہے وہ علی ؑ ابن ابی طالب ہی تو ہیں اور پھر ان کے سلسلے سے میری ذریت اس صفت سے موصوف ہے۔ لوگو تم خدا پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤورنہ غضب الہیٰ کا ہدف بن جاؤ گے اور وہ تمہیں سخت ترین عذاب میں مبتلاء کر دے گا’ یقیناًوہ تمہاری تاک میں ہے ۔ لوگو میرے بعد ایسے بھی پیشوا ہوں گے ’’ جو دوزخ کا راستہ دکھائینگے اور قیامت کے دن بے یارو مددگار ہوں گے‘‘ (قصص ۴۱) لوگو میں ان سے بیزاری کااعلان کرتا ہوں اور میرا خدا بھی ان سے نفرت کرتا ہے ۔ لوگواس قسم کے پیشواان کے ساتھی اور ان کے تمام پیروکار جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جگہ پائیں گے اور یہی ان مغرور اور سرکش لوگوں کا ٹھکانہ ہے ’ اور بہت بُرا ٹھکانہ ہے ۔
ہاں ہاں یہ وہی ارباب صحیفہ ہیں (وہ لوگ جو صحیفہ سازش میں شریک تھے)جن کا مقصد یہ تھا کہ علی ؑ کے مراسم جانشینی کو درہم برہم کر دیا جائے۔
( اس سلسلہ میں کچھ لوگوں نے باہمی عہد وپیمان کیا تھااور اس معاہدہ کو باقاعدہ ضبط تحریرمیں لایا گیا تھا)اور جو صحیفے کی کاروائی میں شریک تھے وہ خوداس نوشتے کو دیکھ لیں ( بہر حال اس وقت گنتی کے چند آدمی ہی نکلے جو صحیفہ کی اصطلاح کو سمجھ سکے) لوگو میں قیامت تک کے لئے امامت کے منصب کو اپنی آلؑ میں امانت اور وراثت قرار دے رہا ہوں اور یقیناًجس امر کی تبلیغ کے لئے مجھے مامور کیا گیا تھا ’ اسے میں نے سب تک پہنچا دیا تاکہ قیامِ قیامت تک تمام افرادامت کے لئے خواہ وہ حاضر ہوں یا غیر حاضر موجود ہوں یا غیر موجود پیدا ہو چکے ہوں یا پیدا نہ ہوئے ہوں یہ ایک
حجت بن جائے حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ خلافت کے مقدس منصب کو چھین جھپٹ کر ملوکیت میں تبدیل کردیا جائے گا۔ اس قسم کے اقدام کرنیوالوں اور ان کے ہمنواؤں پر خدا نے نفرین کی ہے ’ اور وہ قرآن مجید میں کہتا ہے کہ ’’ ہم عنقریب تم دونوں گروہوں (جن و انس)کی جانب متوجہ ہوں گے اور تم دونوں کو آگ کے لپکتے ہوئے ۔ شعلوں اور دھوئیں کے بادلوں کی زد میں لے لیں گے پھر تم ایسے بے بس ہوگے کہ یہ عذاب تمہارے روکے سے نہیں رُک سکے گا۔ ( رحمن ۳۱و ۳۵)
لوگوخدائے بزرگ و برترتمہیں یوں چھوڑنے والا نہیں ’’ جب تک وہ کھرے کو کھوٹے سے اور اچھا کو بُرے سے الگ نہ کرلے۔ (آل عمران ۱۷۹) اور اس نے تمہیں غیب کا علم نہیں دیا ہے ۔ لوگو کوئی ایسی بستی نہیں جسکے باشندوں کو آخرکار پروردگارعالم نے اپنے انبیاء کو جھٹلانے کے باعث ہلاک نہ کر دیا ہو ۔ اور اس نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ اسی عنوان سے وہ ان آبادیوں کو بھی تباہ وبرباد کرڈالتا ہے جن کے رہنے
یہ خلقِ خدا میں خدا کے امین اور اس کی طرف سے زمین پر مقررکئے ہوئے حاکم ہیں۔ اے لو میرا فرض پُورا ہوا ۔خلاقِ عالم کا پیغام پہنچا دیا جو سنانا تھا وہ سنا چکا ہر بات اُجاگر کردی نیز یہ پاک پروردگارکا حکم تھا اس نے کہا میں نے بیان کر دیاہاں یاد رکھو میرے اس بھائی کے علاوہ اور کوئی امیرالمومنین نہیں ہے‘ اور میرے بعداس کے سواکسی کے لئے بھی امارت و سیادت آئینی حثییت نہیں رکھتی۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے اپنے دستِ اقدس سے علی ؑ ابن طالب علیہ السلام کا بازوپکڑکر اتنا بلند کیا کہ آپؑ کے پیر حضورؐ کے گھٹنوں تک پہنچ گئے۔
اس کے بعدسرکاررسالتؐ نے ارشادفرمایا ایہاالناس یہ علی ؑ میرے بھائی ہیں۔ یہی میرے جانشین ‘ میرے علم کے محافظ‘ میرے بعدمیری امت کے سربراہ اور کتابِ خدا کی تفسیرکیلئے میرے نائب ہیں۔ یہی قرآن کی طرف لوگوں کو لائینگے اورمرضاتِ الہی پر عمل پیرا ہو نگے۔ یہ دشمنانِ خدا سے نبرد آزمارہیں گے اور خدا کی اطاعت کرنے والوں سے اخلاص برتیں گے۔ہاں علی ؑ ہی لوگوں کو خداکی نافرمانی کرنے سے لوگوں کو منع کریں گے۔ یہ رسولؐ کے قائم مقام ‘ ایمان والوں کے سرداراور رشد و ہدایت کرنے والے پیشواہیں۔ اس کے علاوہ یہی وہ رہبر ہیں جو فرمانِ الہی کے مطابق عہد شکنوں ‘ گمراہوں اورباغیوں کو کیفرکردارتک پہنچائیں گے۔لوگویہ میں سب کچھ خُدا کے کہنے سے کہہ رہا ہوں اور اس کے حکم سے میرے ہاں بات نہیں بدلتی۔
پروردگار میری التجاہے کہ تو علی ؑ کے دوستوں کو دوست رکھ ‘ اور جو ان سے دشمنی کریں ان سے تو بھی دشمنی فرما۔ اسکے منکروں پر تیری نفرین ہو ‘اور جو اس کے حق پر دست اندازی کریں انہیں تو اپنے غضب کا نشانہ قراردے‘ پالنے والے تونے مجھے بتایا تھا کہ امامت تیرے ولی علی ؑ کاحصہ ہے۔ تیرا منشاء یہ تھا کہ اس حقیقت کو میں لوگوں کے سامنے بیان کرکے اسکے تقررکا اعلان کردوں‘ اس لئے کہ تونے اپنے بندوں کے واسطے ان کے دین کو پُورا کردیاہے۔ اور اپنی نعمت کی بھی تکمیل فرمادی ہے۔ ساتھ ساتھ اسلام کو ان کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دیدیا ہے۔ چنانچہ تیرا ارشاد ہے کہ ’’ اگرکوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو پسند کرے گا تو وہ ہرگزقابل قبول نہیں ہوگا‘اور یقیناقیامت کے دن اس کا شمارگئاٹا اُٹھانے والوں میں ہوگا۔‘‘ (آل عمران آیت ۸۵)
پروردگار تو گواہ رہنا کہ میں نے فرضِ رسالت انجام دے دیا ‘ اور لوگو اس بات کو نہ بُھولنا کے خدائے عزوجل نے تمہارے دین کو علی ؑ کی امامت سے کمال بخشا ہے ۔ لہذا جو شخص علیؑ کی یا میرے فرزندوں میں سے جوعلی ؑ کی ذریت اور قیام قیامت تک حق کے رہنماہوں گے ‘ پیروی نہیں کرے گا یا ان کو ان کی جگہ سے ہٹائے گا ‘ تو وہ ان لوگوں میں شمار ہوگاجن کے سارے کے سارے اعمال سلب کر لئے جائیس گے ۔ خدا ان کے عذاب میں ذرا بھی تخیفیف نہیں کرے گا۔ اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔لوگو علی ؑ تم سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا ‘ تم سب سے بڑھ کر حقدار اور تم سب کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ قریب اورعزیزترین شخصیت ہے علی ؑ سے میں خوش ‘ میرا خدا خوش قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں جس میں رضائے الہیٰ کا تذکرہ ہو اور اس کے مخاطب علی ؑ نہ ہوں ۔ نیز خداوندِعالم نے اپنے کلامِ بلاغت نظام میں جہاں کہیں بھی ’’ اے ایمان والو‘‘کہہ کر خطاب کیا ہے‘ وہاں اولین مقصود علی ؑ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اسی طرح تعریف و تو صیف کی ہر آیت کا عنوان ان ہی کا کردارہے۔’’ سورہ ھل اتیٰ ٰ ‘’ میں بہشت کے مستحق ہونے کی گواہی ان ہی سے مخصوص ہے‘ یہ سورہ پُورے کا پُورا ان ہی کے شان میں اترا ہے۔اور ان کے علاوہ اس میں کسی کی مدح سرائی نہیں کی گئی ہے۔
لوگو علی ؑ دینِ خدا کے حامی و ناصر ‘ رسول خدا کے معین و مددگار ‘ انتہائی متقی ہمہ تن طہارت اور سراپا رشدوہدایت ہیں۔ دیکھو تمہارا نبیؐ بہترین نبیؐ ہے اور اس کا وصی ؑ سب سے اچھا وصیؑ ہے ۔ نیز اس کے فرزندؑ تمام انبیاءؑ کے جانشینوں میں بہترین جانشین ہیں ۔ لوگو ہر پیغمبرؐ کی ذریت اس کے صلب سے بڑھی پھیلی‘ لیکن میری نسل علی ؑ کے ذریعہ قائم و دائم اور پھلتی پُھولتی رہے گی۔
لوگو ابلیس کا حسد آدمؑ کے جنت سے نکلنے کا سبب بنا تم علی ؑ پر رشک نہ کرنا ورنہ تمہارا سارا کیا دھرا برباد ہوجائیگا۔ اورتمہارے قدم لڑکھڑا جائیں
اس کے بعدسرکاررسالتؐ نے ارشادفرمایا ایہاالناس یہ علی ؑ میرے بھائی ہیں۔ یہی میرے جانشین ‘ میرے علم کے محافظ‘ میرے بعدمیری امت کے سربراہ اور کتابِ خدا کی تفسیرکیلئے میرے نائب ہیں۔ یہی قرآن کی طرف لوگوں کو لائینگے اورمرضاتِ الہی پر عمل پیرا ہو نگے۔ یہ دشمنانِ خدا سے نبرد آزمارہیں گے اور خدا کی اطاعت کرنے والوں سے اخلاص برتیں گے۔ہاں علی ؑ ہی لوگوں کو خداکی نافرمانی کرنے سے لوگوں کو منع کریں گے۔ یہ رسولؐ کے قائم مقام ‘ ایمان والوں کے سرداراور رشد و ہدایت کرنے والے پیشواہیں۔ اس کے علاوہ یہی وہ رہبر ہیں جو فرمانِ الہی کے مطابق عہد شکنوں ‘ گمراہوں اورباغیوں کو کیفرکردارتک پہنچائیں گے۔لوگویہ میں سب کچھ خُدا کے کہنے سے کہہ رہا ہوں اور اس کے حکم سے میرے ہاں بات نہیں بدلتی۔
پروردگار میری التجاہے کہ تو علی ؑ کے دوستوں کو دوست رکھ ‘ اور جو ان سے دشمنی کریں ان سے تو بھی دشمنی فرما۔ اسکے منکروں پر تیری نفرین ہو ‘اور جو اس کے حق پر دست اندازی کریں انہیں تو اپنے غضب کا نشانہ قراردے‘ پالنے والے تونے مجھے بتایا تھا کہ امامت تیرے ولی علی ؑ کاحصہ ہے۔ تیرا منشاء یہ تھا کہ اس حقیقت کو میں لوگوں کے سامنے بیان کرکے اسکے تقررکا اعلان کردوں‘ اس لئے کہ تونے اپنے بندوں کے واسطے ان کے دین کو پُورا کردیاہے۔ اور اپنی نعمت کی بھی تکمیل فرمادی ہے۔ ساتھ ساتھ اسلام کو ان کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دیدیا ہے۔ چنانچہ تیرا ارشاد ہے کہ ’’ اگرکوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو پسند کرے گا تو وہ ہرگزقابل قبول نہیں ہوگا‘اور یقیناقیامت کے دن اس کا شمارگئاٹا اُٹھانے والوں میں ہوگا۔‘‘ (آل عمران آیت ۸۵)
پروردگار تو گواہ رہنا کہ میں نے فرضِ رسالت انجام دے دیا ‘ اور لوگو اس بات کو نہ بُھولنا کے خدائے عزوجل نے تمہارے دین کو علی ؑ کی امامت سے کمال بخشا ہے ۔ لہذا جو شخص علیؑ کی یا میرے فرزندوں میں سے جوعلی ؑ کی ذریت اور قیام قیامت تک حق کے رہنماہوں گے ‘ پیروی نہیں کرے گا یا ان کو ان کی جگہ سے ہٹائے گا ‘ تو وہ ان لوگوں میں شمار ہوگاجن کے سارے کے سارے اعمال سلب کر لئے جائیس گے ۔ خدا ان کے عذاب میں ذرا بھی تخیفیف نہیں کرے گا۔ اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔لوگو علی ؑ تم سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا ‘ تم سب سے بڑھ کر حقدار اور تم سب کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ قریب اورعزیزترین شخصیت ہے علی ؑ سے میں خوش ‘ میرا خدا خوش قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں جس میں رضائے الہیٰ کا تذکرہ ہو اور اس کے مخاطب علی ؑ نہ ہوں ۔ نیز خداوندِعالم نے اپنے کلامِ بلاغت نظام میں جہاں کہیں بھی ’’ اے ایمان والو‘‘کہہ کر خطاب کیا ہے‘ وہاں اولین مقصود علی ؑ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اسی طرح تعریف و تو صیف کی ہر آیت کا عنوان ان ہی کا کردارہے۔’’ سورہ ھل اتیٰ ٰ ‘’ میں بہشت کے مستحق ہونے کی گواہی ان ہی سے مخصوص ہے‘ یہ سورہ پُورے کا پُورا ان ہی کے شان میں اترا ہے۔اور ان کے علاوہ اس میں کسی کی مدح سرائی نہیں کی گئی ہے۔
لوگو علی ؑ دینِ خدا کے حامی و ناصر ‘ رسول خدا کے معین و مددگار ‘ انتہائی متقی ہمہ تن طہارت اور سراپا رشدوہدایت ہیں۔ دیکھو تمہارا نبیؐ بہترین نبیؐ ہے اور اس کا وصی ؑ سب سے اچھا وصیؑ ہے ۔ نیز اس کے فرزندؑ تمام انبیاءؑ کے جانشینوں میں بہترین جانشین ہیں ۔ لوگو ہر پیغمبرؐ کی ذریت اس کے صلب سے بڑھی پھیلی‘ لیکن میری نسل علی ؑ کے ذریعہ قائم و دائم اور پھلتی پُھولتی رہے گی۔
لوگو ابلیس کا حسد آدمؑ کے جنت سے نکلنے کا سبب بنا تم علی ؑ پر رشک نہ کرنا ورنہ تمہارا سارا کیا دھرا برباد ہوجائیگا۔ اورتمہارے قدم لڑکھڑا جائیں
گے۔ آدمؑ کا زمین پر آناصرف ترک اوُلیٰ کا نتیجہ تھاحالانکہ وہ خدا کے برگزیدہ بندے تھے۔ اب بتاؤاگرتم نے خداکے احکامات کی صریحی خلاف ورزی کی تو پھر تمہارا کیا حشر ہوگا؟حالانکہ تم تم ہی ہو’’ عیاں راچہ بیاں‘’تمہیں میں سے آخروہ لوگ بھی ہیں جو خدا کے دشمن ہیں۔ ہاں وہ بد نصیب ہی ہوگا جو علی ؑ سے بیر باندھے گا۔ علی ؑ کے دوستوں کی نشانی تو یہ ہے کہ وہ پرہیزگار ہونگے‘ مومن ہوں گے’ مخلص ہوں گے۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہبسم اﷲالرحمن الرحیم والعصر ان الانسان لفی خسر۔۔۔تاآخر۔۔۔ علی ؑ ہی کیلیے نازل ہوا۔ لوگو رب العزت گواہ ہے میں نے نے فرضِ رسالتؐ ادا کر دیا ہے اور رسول ؐکابس یہی کام ہے کہ وہ پیغام پہنچا دے۔(مائدہ ۹۹)لوگو خُدا سے جس طرح ڈرنا چاہییے
ا س طرح ڈرو اور مرتے دم تک اسلام سے وابستہ رہو۔ (آل عمران ۱۳۲)لوگو اﷲ اس کے رسولؐ اوراُس نور پرجو اس کے ساتھ ساتھ آیا ہے ایمان لے آؤ مگراس سے پہلے کہ خُدا کچھ چہرے بگاڑ کر پیچھے کی طرف پھیر دے۔ (نساء۴۷)لوگومعبودمطلق نے اپنے خاص نور کو پہلے مجھ میں سمویا پھر علی ؑ اس کے مرکز بنے اور اس کے بعد قائم آلِ محمدؐ(مہدی ؑ منتظر) وہ ہیں جو خدا کا حق لیں گے اور ہمارے بھی ہر حق کو حاصل کرینگے کیونکہ پاک پروردگار نے ہمیں’ کوتاہی کرنیوالوں’ دشمنی برتنے والوں ’مخالفت پر اترآنے والوں اور ان کے علاوہ خیانت کاروں’ جفا کاروں’ گناہ گاروں نیزدنیا بھر کے جفاشعاروں پر حجت قرار دیا ہے‘ لوگومیں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ میں اﷲ کا رسولؐ ہوں اور مجھ سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ لہذااگر میں دنیا سے چل بسوںیا قتل کر ڈالا جاؤں تو تم الٹے پیروں پلٹ جاؤ گے اور جو اس طرح الٹے پاؤں پھرے گا (یعنی دین کا دامن چھوڑ دے گا)وہ خدا کاکچھ نہیں بگاڑے گا۔اور پروردگار عالم عنقریب شکر گزاروں کو جزائے خیردے گا۔
اور دیکھو صبر وشکر کو جن کی صفت قراردیا گیا ہے وہ علی ؑ ابن ابی طالب ہی تو ہیں اور پھر ان کے سلسلے سے میری ذریت اس صفت سے موصوف ہے۔ لوگو تم خدا پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤورنہ غضب الہیٰ کا ہدف بن جاؤ گے اور وہ تمہیں سخت ترین عذاب میں مبتلاء کر دے گا’ یقیناًوہ تمہاری تاک میں ہے ۔ لوگو میرے بعد ایسے بھی پیشوا ہوں گے ’’ جو دوزخ کا راستہ دکھائینگے اور قیامت کے دن بے یارو مددگار ہوں گے‘‘ (قصص ۴۱) لوگو میں ان سے بیزاری کااعلان کرتا ہوں اور میرا خدا بھی ان سے نفرت کرتا ہے ۔ لوگواس قسم کے پیشواان کے ساتھی اور ان کے تمام پیروکار جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جگہ پائیں گے اور یہی ان مغرور اور سرکش لوگوں کا ٹھکانہ ہے ’ اور بہت بُرا ٹھکانہ ہے ۔
ہاں ہاں یہ وہی ارباب صحیفہ ہیں (وہ لوگ جو صحیفہ سازش میں شریک تھے)جن کا مقصد یہ تھا کہ علی ؑ کے مراسم جانشینی کو درہم برہم کر دیا جائے۔
( اس سلسلہ میں کچھ لوگوں نے باہمی عہد وپیمان کیا تھااور اس معاہدہ کو باقاعدہ ضبط تحریرمیں لایا گیا تھا)اور جو صحیفے کی کاروائی میں شریک تھے وہ خوداس نوشتے کو دیکھ لیں ( بہر حال اس وقت گنتی کے چند آدمی ہی نکلے جو صحیفہ کی اصطلاح کو سمجھ سکے) لوگو میں قیامت تک کے لئے امامت کے منصب کو اپنی آلؑ میں امانت اور وراثت قرار دے رہا ہوں اور یقیناًجس امر کی تبلیغ کے لئے مجھے مامور کیا گیا تھا ’ اسے میں نے سب تک پہنچا دیا تاکہ قیامِ قیامت تک تمام افرادامت کے لئے خواہ وہ حاضر ہوں یا غیر حاضر موجود ہوں یا غیر موجود پیدا ہو چکے ہوں یا پیدا نہ ہوئے ہوں یہ ایک
حجت بن جائے حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ خلافت کے مقدس منصب کو چھین جھپٹ کر ملوکیت میں تبدیل کردیا جائے گا۔ اس قسم کے اقدام کرنیوالوں اور ان کے ہمنواؤں پر خدا نے نفرین کی ہے ’ اور وہ قرآن مجید میں کہتا ہے کہ ’’ ہم عنقریب تم دونوں گروہوں (جن و انس)کی جانب متوجہ ہوں گے اور تم دونوں کو آگ کے لپکتے ہوئے ۔ شعلوں اور دھوئیں کے بادلوں کی زد میں لے لیں گے پھر تم ایسے بے بس ہوگے کہ یہ عذاب تمہارے روکے سے نہیں رُک سکے گا۔ ( رحمن ۳۱و ۳۵)
لوگوخدائے بزرگ و برترتمہیں یوں چھوڑنے والا نہیں ’’ جب تک وہ کھرے کو کھوٹے سے اور اچھا کو بُرے سے الگ نہ کرلے۔ (آل عمران ۱۷۹) اور اس نے تمہیں غیب کا علم نہیں دیا ہے ۔ لوگو کوئی ایسی بستی نہیں جسکے باشندوں کو آخرکار پروردگارعالم نے اپنے انبیاء کو جھٹلانے کے باعث ہلاک نہ کر دیا ہو ۔ اور اس نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ اسی عنوان سے وہ ان آبادیوں کو بھی تباہ وبرباد کرڈالتا ہے جن کے رہنے
والے ستمگار ہوں۔ پھر سنو یہ علی تمہارے امام ہیں تمہارے آقا ہیں اور ان کی ذات وعدہ خداوندی ہے اور اﷲاپنے وعدوں کو ضرور سچا ثابت کرتا ہے۔ لوگوتم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں ان میں سے اکثر گمراہ ہوئے اور اس پیدا کرنے والے نے انہیں مٹا دیا بالکل اسی طرح وہ بعد والوں کو بھی نیست و نابود کردے گا ۔ لوگو حق تعالیٰ نے مجھے امر و نہی کی تعلیم دی اور میں نے یہ سب کچھ علی ؑ کو بتا دیا لہذا اب یوں سمجھو کہ علی ؑ کا ذخیرہ دانشِ خدا ہی کا دیا ہوا ہے اور جب حقیقت یہ ہو تواب تمہارافرص بن جاتا ہے کہ تم ان کاحکم مانو تاکہ محفوظ رہو ۔ ان کی اطاعت کرو تاکہ ہدایت پاؤ وہ جس کام کو منع کریں وہ نہ کرو تاکہ سیدھے راستے سے لگ سکوبس ان کے منشاء کے مطابق چلو اور ان کے مسلک سے ہٹ کر پراگندہ راہ نہ بنو۔
لوگو میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی طرف گامزن ہونے کے لئے تمہیں خدا نے حکم دیا ہے اور میرے بعد علی ؑ ہیں پھر وہ امام ہیں جو علی ؑ کے فرزند اور میری آلؑ ہیں ۔ یہ سب حق کے رہنما اور عدلِ قرآنی کے پاسبان ہیں تقریر کی اس منزل پر سرکار ختمی مرتبت ؐ نے سورہ حمد کی تلاوت کی اور ارشاد فرمایا کہ یہ سورۃ میرے واسطے اور علی ؑ اور اولادِعلی ؑ کے لئے نازل ہُوئی اور انہیں سے مختص ہے۔ ’’وہ خد ا کے دوست ہیں جنہیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگااور نہ کبیدہ خاطر ہونگے‘‘(یونس۶۲)نیز اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خداکے گروہ کو ہمیشہ غلبہ حاصل رہتا ہے اور سنو علی ؑ کے دشمن انتشارپسندہیں۔ حدوں سے گزرجاتے ہیں۔شیطانوں سے ان کا رشتہ ملتا ہے جو کہ ایک دوسرے کو فریب دینے کے لئے چپکے چپکے چکنی چیڑی باتیں کرتے ہیں‘‘(انعام۱۱۲) لیکن ان کے دوست وہ صاحبان ایمان ہیں جنہیں کلامِ پاک نے یوں یاد کیا ہے کہ ’’ جو لوگ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تم انہیں دشمنانِ خداو رسول ؐ کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے نہیں پاؤ گے اگرچہ وہ ان کے باپ ’بیٹے’بھائی بندیا قوم قبیلے والے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں خدا نے ایمان راسخ کردیا ہے اوراپنی خاص روشنی سے ان کی تائیدفرمائی ہے’ تاآخر آیت(سورہ مجادلہ۲۲)اوران ہی کی توصیف میں ایک دوسرے مقام پر ارشادہوتا ہے کہ’’ وہ جنہوں نے ایمان قبول کرنے کے بعدپھر اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا بس انہیں لوگوں کے لئے امن و عافیت ہے اور انہیں کو ہدایت حاصل ہوئی ہے‘‘ (سورہ انعام۸۲)
ہاں انکے دوست وہ ہیں جو نہایت اطمینان سے جنت میں داخل ہوں گے۔ ملائکہ ان کا استقبال کریں گے۔ سلام بجا لائیں گے۔اور خوش آمدید کہہ کر یہ مثزدہ سنا’یں گے کہ آؤ بس اب یہیں رہواور جم جم رہو ۔ نیزعلی ؑ اور فرزندانِ علی ؑ کے چاہنے والے بے حساب بہشت میں پہنچیں گے اور ان کے دشمن آگ میں جلیں گے۔ دوزخ کی ہولناک چیخیں سنیں گے’ جہنم کا جوش و خروش دیکھیں گے۔ان کے سامنے یہ منظرہوں گے کہ جو گروہ دوزخ میں ڈالا جائے گاوہ دوسرے گروہ پر لعنت بھیجے گا۔ ‘‘ (سورہ اعراف۳۸)
ہاں ہاں اور ان دشمنوں کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ’’ جیسے ہی کوئی جتھا جہنم واصل ہوگاتو فرشتگان عذاب دریافت کریں گے کہ کیا تمہارے ہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟‘‘(سورہ ملک ۸)اور ان کے دوست کیا کہناان کا’’ جو بے دیکھے اپنے پالنے والے سے ڈرتے ہیں ان ہی کے لئے مغفرت ہے اور یہی بڑے اجرکے حقدار ہیں‘‘(سورہ ملک۱۲) لوگو غور کیا تم نے کہ جنت وجہنم میں کتنا فرق ہے۔اور یہ تفاوت بھی دیکھوکہ خدانے ہمارے دشمن کی مذمت کی ہے اور اس پر نفرین بھیجی ہے اوربرخلاف اس کے وہ ہمارے دوستوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے لوگو میں تمہیں ڈرانے کے لیے آیا ہوں اور علی ؑ تمہاری ہدایت کے لئے مقررہوئے ہیں۔
لوگومیں نبیؐہوں اور علی ؑ میرے وصی ہیں اور خاتم الاآئمہ ہمارا مہدی قائم ہے سن لو وہ تمام ادیان پر غالب آئے گاظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائیگا تمام قلعوں پر فتح کا پرچم لہرا کرستم کاقلع و قمع کرے گا ۔ شرک کے ہر سلسلے کو مٹائے گا نیز خدا کے تمام دوستوں کے خون ناحق کا بدلہ لے گا۔ وہ اﷲ کے دین کا ناصر ہے اور معرفعت الہیٰ کے اتھاہ سمندر سے ہمیشہ سیراب ہوتا رہیگانیز وہ دانش مندوں کے ساتھ ان کے علم و فضل کی وجہ سے اور نادانوں کیساتھ ان کی نادانی کے پیش نظر حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے گا۔ وہ خدا کی پسندکا متخب بندہ ہے وہ ہر علم کا وارث ہوگا اور علم کے ہر شعبہ پر چھایا رہے گا۔ وہ خدا کی باتیں بتائے گا۔؎
لوگو میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی طرف گامزن ہونے کے لئے تمہیں خدا نے حکم دیا ہے اور میرے بعد علی ؑ ہیں پھر وہ امام ہیں جو علی ؑ کے فرزند اور میری آلؑ ہیں ۔ یہ سب حق کے رہنما اور عدلِ قرآنی کے پاسبان ہیں تقریر کی اس منزل پر سرکار ختمی مرتبت ؐ نے سورہ حمد کی تلاوت کی اور ارشاد فرمایا کہ یہ سورۃ میرے واسطے اور علی ؑ اور اولادِعلی ؑ کے لئے نازل ہُوئی اور انہیں سے مختص ہے۔ ’’وہ خد ا کے دوست ہیں جنہیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگااور نہ کبیدہ خاطر ہونگے‘‘(یونس۶۲)نیز اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خداکے گروہ کو ہمیشہ غلبہ حاصل رہتا ہے اور سنو علی ؑ کے دشمن انتشارپسندہیں۔ حدوں سے گزرجاتے ہیں۔شیطانوں سے ان کا رشتہ ملتا ہے جو کہ ایک دوسرے کو فریب دینے کے لئے چپکے چپکے چکنی چیڑی باتیں کرتے ہیں‘‘(انعام۱۱۲) لیکن ان کے دوست وہ صاحبان ایمان ہیں جنہیں کلامِ پاک نے یوں یاد کیا ہے کہ ’’ جو لوگ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تم انہیں دشمنانِ خداو رسول ؐ کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے نہیں پاؤ گے اگرچہ وہ ان کے باپ ’بیٹے’بھائی بندیا قوم قبیلے والے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں خدا نے ایمان راسخ کردیا ہے اوراپنی خاص روشنی سے ان کی تائیدفرمائی ہے’ تاآخر آیت(سورہ مجادلہ۲۲)اوران ہی کی توصیف میں ایک دوسرے مقام پر ارشادہوتا ہے کہ’’ وہ جنہوں نے ایمان قبول کرنے کے بعدپھر اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا بس انہیں لوگوں کے لئے امن و عافیت ہے اور انہیں کو ہدایت حاصل ہوئی ہے‘‘ (سورہ انعام۸۲)
ہاں انکے دوست وہ ہیں جو نہایت اطمینان سے جنت میں داخل ہوں گے۔ ملائکہ ان کا استقبال کریں گے۔ سلام بجا لائیں گے۔اور خوش آمدید کہہ کر یہ مثزدہ سنا’یں گے کہ آؤ بس اب یہیں رہواور جم جم رہو ۔ نیزعلی ؑ اور فرزندانِ علی ؑ کے چاہنے والے بے حساب بہشت میں پہنچیں گے اور ان کے دشمن آگ میں جلیں گے۔ دوزخ کی ہولناک چیخیں سنیں گے’ جہنم کا جوش و خروش دیکھیں گے۔ان کے سامنے یہ منظرہوں گے کہ جو گروہ دوزخ میں ڈالا جائے گاوہ دوسرے گروہ پر لعنت بھیجے گا۔ ‘‘ (سورہ اعراف۳۸)
ہاں ہاں اور ان دشمنوں کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ’’ جیسے ہی کوئی جتھا جہنم واصل ہوگاتو فرشتگان عذاب دریافت کریں گے کہ کیا تمہارے ہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟‘‘(سورہ ملک ۸)اور ان کے دوست کیا کہناان کا’’ جو بے دیکھے اپنے پالنے والے سے ڈرتے ہیں ان ہی کے لئے مغفرت ہے اور یہی بڑے اجرکے حقدار ہیں‘‘(سورہ ملک۱۲) لوگو غور کیا تم نے کہ جنت وجہنم میں کتنا فرق ہے۔اور یہ تفاوت بھی دیکھوکہ خدانے ہمارے دشمن کی مذمت کی ہے اور اس پر نفرین بھیجی ہے اوربرخلاف اس کے وہ ہمارے دوستوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے لوگو میں تمہیں ڈرانے کے لیے آیا ہوں اور علی ؑ تمہاری ہدایت کے لئے مقررہوئے ہیں۔
لوگومیں نبیؐہوں اور علی ؑ میرے وصی ہیں اور خاتم الاآئمہ ہمارا مہدی قائم ہے سن لو وہ تمام ادیان پر غالب آئے گاظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائیگا تمام قلعوں پر فتح کا پرچم لہرا کرستم کاقلع و قمع کرے گا ۔ شرک کے ہر سلسلے کو مٹائے گا نیز خدا کے تمام دوستوں کے خون ناحق کا بدلہ لے گا۔ وہ اﷲ کے دین کا ناصر ہے اور معرفعت الہیٰ کے اتھاہ سمندر سے ہمیشہ سیراب ہوتا رہیگانیز وہ دانش مندوں کے ساتھ ان کے علم و فضل کی وجہ سے اور نادانوں کیساتھ ان کی نادانی کے پیش نظر حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے گا۔ وہ خدا کی پسندکا متخب بندہ ہے وہ ہر علم کا وارث ہوگا اور علم کے ہر شعبہ پر چھایا رہے گا۔ وہ خدا کی باتیں بتائے گا۔؎
وہ اپنے ایمان کی شان و شوکت سے دنیا کو جگائے گا۔ قائم آلِ محمدؐ کی ذات فکرو عمل کے جمال وکمال کا مثالی نمونہ ہوگی۔ امت کے کل امور اسی کے سپرد ہونگے۔ اور یہ وہی عظیم شخصیت ہے کہ جس کی ہر پیش رو نے بشارت دی ہے ۔ ہاں بس وہی ایک رہنے والی حجت اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔ ہر حق اس کا ہم نفس اور ہر نور اس کا ہم قدم ہے ۔ پھر نہ کوئی اس پرغالب آسکتا ہے ۔ ہاں رُوئے زمین پر وہی خدا کا ولی اور خلقِ خدا میں اس کی جانب سے با اختیارحاکم بھی وہی ہے۔نیزظاہر ہو یا باطن ہر عالم میں وہ خدا کا امین ہے۔
لوگو میں تمہیں اچھی طرح سے بتا چکا ہوں’ کافی سمجھا چکا ہوں اب میری بعد یہ علی ؑ تمہیں سمجھائیں گے اور اپنی تقریرکے فورا بعدمیں تمہیں ان کی بعیت کے لئے طلب کروں گا۔ پہلے تمہیں ان کی امامت کے اقرار کے سلسلہ میں میرے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہوگا اور اس کے بعد خود ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعیت کرنا پڑے گی۔ دیکھو میں خدا سے بیعیت کر چکا ہوں اور علی ؑ نے میری بیعیت کی ہے اور اب میں خدا کی جانب سے علی ؑ کے لیے تم سب سے بیعیت لے رہا ہوں اور اگر اس کے بعد بھی کسی نے بیعیت توڑدی تویاد رکھو اسے خود اپنے نفسکی شکست کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ لوگویقینی طور پر حج صفا مروہ اور عمرہ یہ سب شعائرالہٰیہ یعنی خدا کے دین کی نشانیاں ہیں ۔ پس جوِ شخص خانہ خدا کا حج کرے یا عمرہ بجا لائے تو اس کے لئے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں ‘‘ ( سورہ بقرہ ۱۵۸)
لوگوخانہ خدا کا حج کرواس لئے کہ کوئی گھرانہ ایسا نہیں حج بجا لینے کے بعدتونگر نہ ہوگیا ہو اور اسی طرح کوئی ایسا خاندان نہیں ملے گاجس نے فریضہ حج سے رُو گردانی کی ہو اور وہ نکبت و افلاس کا شکار نہ بنا ہو ۔ لوگوجو مومن بھی عرفات میں وقوف کرتا ہے ’ خداوندِعالم اس وقت کے اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے اور حج کی بجا آوری کے بعداس کے اعمال نئے سرے شروع ہوتے ہیں ’ لوگو پروردگار کریم کی جانب سے اس کا معاوضہ بھی انہیں مل جاتا ہے ۔ دیکھو معبودِمطلق اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔ لوگو تم پُوری دیانت داری اور کمال علم ومعرفعت کے ساتھ حج بجا لایا کرو۔ اور حج و عمرہ جیسے مقدس اجتماعات کو اس وقت تک چھوڑ کر نہ جاؤ جبتک کہ توبہ اور ترکِ گناہ کا احساس نہ جاگ اُٹھے ۔
لوگوحکمِ خدا کے مطابق نماز برپا کرو اورزکوٰۃ بھی ادا کرتے رہو نیز خیال رہے کہ اگر امتدادِزمانہ کے باعث مذہبی معاملات میں کوتاہی ہونے لگے یا یہ کہ تم سرے سے دین کے احکام ہی بھول جاؤتو یہ علی ؑ تمہارے مولا ہیں جو باتیں تم لوگوں کو نہیں معلوم ہو نگی وہ یہ پوری وضاحت کے ساتھ تمہیں بتائیں گے ۔ علی ؑ کو خدا نے ہی منصبِ ولایت پر مقررفرمایا ہے۔ نیز میرے اوران کے سلسلے سے جو پیشوا ہونگے وہ بھی تمہارے سوالوں کے جواب دینگے۔ اور تم جن امور سے نہیں واقف ہو ان کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے ۔
دیکھو حلال وحرام کے مسائل اتنے مختصر نہیں ہیں کہ انہیں شمار کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا جائے اور نہ حلال وحرام جیسے طول طویل قانونی مسائل کو ایک نشست میں بیان کرنا مناسب ہوگا۔چنانچہ مجھے تو اس وقت بس یہ حکم ملا ہے کہ ابھی ابھی میں علی ؑ کے لئے تم سے بیعیت لوں اور تمہارے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر یہ کہوں کہ خدائے عزوجل کی جانب سے علی ؑ اور ان کی اولاد کے بارے میں مجھے جو حکم ملا ہے تم اس کو قبول کرنے کا وعدہ کرو۔ علی ؑ کے مانند ان کی اولاد اور میری آل بھی مرکز امامت ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک برقرار رہے گا۔ ان ہی میں سے قائم آلِ محمدؐ کی ذات گرامی ہے ۔ جن کا ہر فیصلہ حق کے سانچے میں ڈھلا ہواہوگا۔ لوگو میں نے حلال وحرام کی جو حدیں مقرر کی تھیں ان میں نہ کچھ بدلا اور نہ کوئی تغیرکی۔
دیکھو یہ بات دوسروں کو بھی بتاتے رہنا ۔ اور تم میری شریعت کے کسی حکم کو کبھی بدلنے کی کوشش نہ کرنا۔ لو میں مکررکہتا ہوں لوگو نمازقائم کرنا زکواٰۃ ادا کرنا معروف کا حکم دینا اور منکر پر عمل کرنے سے روکتے رہنا۔ دیکھو معروف کا شاہکار یا نیکی کی سب سے بڑی عملی جدوجہد یہ ہوگی کہ اس وقت تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غیرموجود افراد تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں اور سعی کریں کہ ہر شخص اس کو قبول کرلے اور اس کی مخالفت نہ کرنے پائے۔ اس لئے کہ یہ خدا اور اس کے رسول کاحکم ہے ۔ نیز اس حقیقت کو بھی کبھی فراموش نہ کرنا کہ جب تک کوئی امام معصوم نہ
لوگو میں تمہیں اچھی طرح سے بتا چکا ہوں’ کافی سمجھا چکا ہوں اب میری بعد یہ علی ؑ تمہیں سمجھائیں گے اور اپنی تقریرکے فورا بعدمیں تمہیں ان کی بعیت کے لئے طلب کروں گا۔ پہلے تمہیں ان کی امامت کے اقرار کے سلسلہ میں میرے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہوگا اور اس کے بعد خود ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعیت کرنا پڑے گی۔ دیکھو میں خدا سے بیعیت کر چکا ہوں اور علی ؑ نے میری بیعیت کی ہے اور اب میں خدا کی جانب سے علی ؑ کے لیے تم سب سے بیعیت لے رہا ہوں اور اگر اس کے بعد بھی کسی نے بیعیت توڑدی تویاد رکھو اسے خود اپنے نفسکی شکست کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ لوگویقینی طور پر حج صفا مروہ اور عمرہ یہ سب شعائرالہٰیہ یعنی خدا کے دین کی نشانیاں ہیں ۔ پس جوِ شخص خانہ خدا کا حج کرے یا عمرہ بجا لائے تو اس کے لئے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں ‘‘ ( سورہ بقرہ ۱۵۸)
لوگوخانہ خدا کا حج کرواس لئے کہ کوئی گھرانہ ایسا نہیں حج بجا لینے کے بعدتونگر نہ ہوگیا ہو اور اسی طرح کوئی ایسا خاندان نہیں ملے گاجس نے فریضہ حج سے رُو گردانی کی ہو اور وہ نکبت و افلاس کا شکار نہ بنا ہو ۔ لوگوجو مومن بھی عرفات میں وقوف کرتا ہے ’ خداوندِعالم اس وقت کے اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے اور حج کی بجا آوری کے بعداس کے اعمال نئے سرے شروع ہوتے ہیں ’ لوگو پروردگار کریم کی جانب سے اس کا معاوضہ بھی انہیں مل جاتا ہے ۔ دیکھو معبودِمطلق اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔ لوگو تم پُوری دیانت داری اور کمال علم ومعرفعت کے ساتھ حج بجا لایا کرو۔ اور حج و عمرہ جیسے مقدس اجتماعات کو اس وقت تک چھوڑ کر نہ جاؤ جبتک کہ توبہ اور ترکِ گناہ کا احساس نہ جاگ اُٹھے ۔
لوگوحکمِ خدا کے مطابق نماز برپا کرو اورزکوٰۃ بھی ادا کرتے رہو نیز خیال رہے کہ اگر امتدادِزمانہ کے باعث مذہبی معاملات میں کوتاہی ہونے لگے یا یہ کہ تم سرے سے دین کے احکام ہی بھول جاؤتو یہ علی ؑ تمہارے مولا ہیں جو باتیں تم لوگوں کو نہیں معلوم ہو نگی وہ یہ پوری وضاحت کے ساتھ تمہیں بتائیں گے ۔ علی ؑ کو خدا نے ہی منصبِ ولایت پر مقررفرمایا ہے۔ نیز میرے اوران کے سلسلے سے جو پیشوا ہونگے وہ بھی تمہارے سوالوں کے جواب دینگے۔ اور تم جن امور سے نہیں واقف ہو ان کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے ۔
دیکھو حلال وحرام کے مسائل اتنے مختصر نہیں ہیں کہ انہیں شمار کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا جائے اور نہ حلال وحرام جیسے طول طویل قانونی مسائل کو ایک نشست میں بیان کرنا مناسب ہوگا۔چنانچہ مجھے تو اس وقت بس یہ حکم ملا ہے کہ ابھی ابھی میں علی ؑ کے لئے تم سے بیعیت لوں اور تمہارے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر یہ کہوں کہ خدائے عزوجل کی جانب سے علی ؑ اور ان کی اولاد کے بارے میں مجھے جو حکم ملا ہے تم اس کو قبول کرنے کا وعدہ کرو۔ علی ؑ کے مانند ان کی اولاد اور میری آل بھی مرکز امامت ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک برقرار رہے گا۔ ان ہی میں سے قائم آلِ محمدؐ کی ذات گرامی ہے ۔ جن کا ہر فیصلہ حق کے سانچے میں ڈھلا ہواہوگا۔ لوگو میں نے حلال وحرام کی جو حدیں مقرر کی تھیں ان میں نہ کچھ بدلا اور نہ کوئی تغیرکی۔
دیکھو یہ بات دوسروں کو بھی بتاتے رہنا ۔ اور تم میری شریعت کے کسی حکم کو کبھی بدلنے کی کوشش نہ کرنا۔ لو میں مکررکہتا ہوں لوگو نمازقائم کرنا زکواٰۃ ادا کرنا معروف کا حکم دینا اور منکر پر عمل کرنے سے روکتے رہنا۔ دیکھو معروف کا شاہکار یا نیکی کی سب سے بڑی عملی جدوجہد یہ ہوگی کہ اس وقت تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غیرموجود افراد تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں اور سعی کریں کہ ہر شخص اس کو قبول کرلے اور اس کی مخالفت نہ کرنے پائے۔ اس لئے کہ یہ خدا اور اس کے رسول کاحکم ہے ۔ نیز اس حقیقت کو بھی کبھی فراموش نہ کرنا کہ جب تک کوئی امام معصوم نہ
ہو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔
لوگو قرآن تمہیں بتا رہا ہے کہ علی ؑ کے بعدان کے فرزند امامِ برحق ہیں۔ اور یہ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ یہ میری ذریت ہیں۔خدائے وندِعالم کا ارشاد ہے کہ ’’ اس نے سلسلہ امامت کو ذریت ابراہیم ؑ کی نسل میں باقی اور برقرار رکھا ہے‘‘(سورہ زخرف ۲۸)اور میں نے بھی توضیح کردی ہے کہ جب تک تم لوگ قرآن اور اہلبیتؑ سے تمسک رکھو گے گمراہ نہیں ہوگے ۔
لوگو تقویٰ’’ تقویٰ‘‘ قیامت سے ڈرو قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے ‘‘ (سورہ حج ۱) زندگی کی آخری ہچکی کا خیال رہے ’ نیز حسابِ محشر’ میزان عمل اور اس خدائے رب العالمین کے سامنے بازپرس اور وثواب و عقاب کی کیفیت کو کبھی اپنے ذہن سے الگ نہ ہونے دینا۔کیونکہ میدانِ حشر میں جو نیک اعمال لے کرآئے گااسے جزاء ملے گی اور جو گناہوں کے ساتھ پہنچے گا اس کے نصیبوں میں بہشت کہاں؟
لوگو مجمع بتا رہا ہے کہ حاضرین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جب لوگ اس کثرت سے ہوں تو پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعیت لینا بہت دشوارہے۔ اسی لئے حکمِ الہیٰ ہوا ہے کہ علی ؑ ابن ابی طالب اور ان کے بعد ہونے والے آئمہ حق کی بیعیت کے سلسلہ میں تم صرف زبانی قول وقرارلے لیا جائے ۔
اچھا اب تم سب مل کر کہو کہ آپؐ نے علی ؑ اور علی ؑ کی اولاد کے بارے میں جو پیغام دیا ہے ہم سب نے سن لیا ۔ سر تسلیم خم ہے ۔ ہم راضی ہیں ’ فرماں بردار ہیں’ دل وجان سے عہد وپیمان کرتے ہیں۔ زبان دیتے ہیں اور ہاتھ سے بیعیت کرتے ہیں نیزہم اپنے وعدوں کو نباہنے کا جذبہ لئے ہوئے زندہ رہیں گے ۔ اسی شعور کے ساتھ مریں گے۔اور یہی احساس لئے ہوئے حشر کے میدان میں آئیں گے ۔ امامت کے مسئلے میں نہ ہم کوئی ردو بدل کرینگے نہ شک و شبہ کو اپنے قریب آنے دینگے نہ اپنے قول سے پھریں گے اور نہ پیمان شکنی کے مرتکب ہوں گے۔وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اﷲ کی اطاعت کریں گے۔آپؐ کاحکم مانیں گے ’ نیز امیرالمومنین علی ؑ ابن ابی طالب اور ان کے رہنمافرزندوں کا فرمان بجا لائیں گے جو آپؐ کے مقصودو مطلوب ہیں۔
لوگو میں اپنی ذریت اور علی ؑ کی اولاد کا جو حسن ؑ اور حسین ؑ کے سلسلے سے ہوگی پہلے تعارف کرواچکا ہوں۔ نیز حسنین ؑ کے مقام اورمرتبے اور بارگاہِ ایزد ی میں ان کی جو منزلت ہے اس کی تفصیل بھی تم سن چکے ہو ’’ یہ دونوں جوانانِ جنت کے سردارہیں‘‘ اپنے باپ کے بعد یہی امام ہونگے ۔ یہ میرے بیٹے ہیں اور علی ؑ سے پہلے میں ان کا باپ ہوں۔ ہاں تو پھر کہو کہ ہم امرِامامت میں خدا’ اس کے رسول ؐ علی ؑ ابن ابی طالب حسن ؑ اور حسین ؑ اور ان کے جانشینوں کے آگے سراپاتسلیم ہیں ’ اور حق وحقیقت کے ان تمام نمائندوں کی بیعیت کے سلسلے میں ہم نے آپؐ سے جو وعدے وعیدکئے ہیں ان پر قائم ہیں۔ ہم دل سے جان سے زبان سے اور ہاتھوں سے بیعیت کرتے ہیں’ نہ ہم اس میں کسی تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ کبھی ایسی خواہش کو دل میں جگہ دینگے خدا کو ہم نے گواہ کیا ہے اور اس کی گواہی بہت کافی ہے اور آپؐ بھی گواہ رہیں۔
نیز ہم خدا کی تمام اطاعت شعارمخلوق کو خواہ وہ نظروں کے سامنے ہوں یا آنکھوں سے اوجھل گواہ بناتے ہیں۔ اسی طرح اﷲ کے سارے فرشتوں اس کے پُورے لشکر اور جملہ بندگانِ خدُا کوگواہی میں لیتے ہیں نیز اﷲہر گواہ سے بڑااور بہت بڑا گواہ ہے۔
لوگو بتاؤ اب تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟ یقین رکھو ’’ کہ پاک پروردگار ہر آواز کو سن لیتا ہے ۔ اور دل کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے ہر راز کو پا لیتاہے ’ لہذا جو ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے وہ اپنا بھلا کرتا ہے ۔ اور جو سیدھا راستہ چھوڑکر گمراہ ہو جاتا ہے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے ‘‘
(سورہ زمر۴۱)اور دیکھو بیعیت کرنے والا اﷲ کی بیعیت کرتا ہے اور اﷲ کا ہاتھ ہمیشہ اُونچا رہتا ہے۔‘‘ (سورہ فتح ۱۰)
لوگو اﷲ کا خوف کرو اور امیرالمومنین علی ؑ ابن ابی طالب حسن ؑ و حسین اور ان کے فرزندوں کی بیعیت کرلو ۔ یہ آئمہ کلمہ باقیہ ہیں۔ خداوندِعالم غداری کرنے والوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور وفا شعاروں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ عنایت فرماتا ہے اور ’’ جو معاہدہ شکنی کرتا ہے اسے خود ہی اس کا بھگتان بھگتنا پڑتا ہے۔‘’ (سورہ فتح ۱۰)
لوگو قرآن تمہیں بتا رہا ہے کہ علی ؑ کے بعدان کے فرزند امامِ برحق ہیں۔ اور یہ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ یہ میری ذریت ہیں۔خدائے وندِعالم کا ارشاد ہے کہ ’’ اس نے سلسلہ امامت کو ذریت ابراہیم ؑ کی نسل میں باقی اور برقرار رکھا ہے‘‘(سورہ زخرف ۲۸)اور میں نے بھی توضیح کردی ہے کہ جب تک تم لوگ قرآن اور اہلبیتؑ سے تمسک رکھو گے گمراہ نہیں ہوگے ۔
لوگو تقویٰ’’ تقویٰ‘‘ قیامت سے ڈرو قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے ‘‘ (سورہ حج ۱) زندگی کی آخری ہچکی کا خیال رہے ’ نیز حسابِ محشر’ میزان عمل اور اس خدائے رب العالمین کے سامنے بازپرس اور وثواب و عقاب کی کیفیت کو کبھی اپنے ذہن سے الگ نہ ہونے دینا۔کیونکہ میدانِ حشر میں جو نیک اعمال لے کرآئے گااسے جزاء ملے گی اور جو گناہوں کے ساتھ پہنچے گا اس کے نصیبوں میں بہشت کہاں؟
لوگو مجمع بتا رہا ہے کہ حاضرین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جب لوگ اس کثرت سے ہوں تو پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعیت لینا بہت دشوارہے۔ اسی لئے حکمِ الہیٰ ہوا ہے کہ علی ؑ ابن ابی طالب اور ان کے بعد ہونے والے آئمہ حق کی بیعیت کے سلسلہ میں تم صرف زبانی قول وقرارلے لیا جائے ۔
اچھا اب تم سب مل کر کہو کہ آپؐ نے علی ؑ اور علی ؑ کی اولاد کے بارے میں جو پیغام دیا ہے ہم سب نے سن لیا ۔ سر تسلیم خم ہے ۔ ہم راضی ہیں ’ فرماں بردار ہیں’ دل وجان سے عہد وپیمان کرتے ہیں۔ زبان دیتے ہیں اور ہاتھ سے بیعیت کرتے ہیں نیزہم اپنے وعدوں کو نباہنے کا جذبہ لئے ہوئے زندہ رہیں گے ۔ اسی شعور کے ساتھ مریں گے۔اور یہی احساس لئے ہوئے حشر کے میدان میں آئیں گے ۔ امامت کے مسئلے میں نہ ہم کوئی ردو بدل کرینگے نہ شک و شبہ کو اپنے قریب آنے دینگے نہ اپنے قول سے پھریں گے اور نہ پیمان شکنی کے مرتکب ہوں گے۔وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اﷲ کی اطاعت کریں گے۔آپؐ کاحکم مانیں گے ’ نیز امیرالمومنین علی ؑ ابن ابی طالب اور ان کے رہنمافرزندوں کا فرمان بجا لائیں گے جو آپؐ کے مقصودو مطلوب ہیں۔
لوگو میں اپنی ذریت اور علی ؑ کی اولاد کا جو حسن ؑ اور حسین ؑ کے سلسلے سے ہوگی پہلے تعارف کرواچکا ہوں۔ نیز حسنین ؑ کے مقام اورمرتبے اور بارگاہِ ایزد ی میں ان کی جو منزلت ہے اس کی تفصیل بھی تم سن چکے ہو ’’ یہ دونوں جوانانِ جنت کے سردارہیں‘‘ اپنے باپ کے بعد یہی امام ہونگے ۔ یہ میرے بیٹے ہیں اور علی ؑ سے پہلے میں ان کا باپ ہوں۔ ہاں تو پھر کہو کہ ہم امرِامامت میں خدا’ اس کے رسول ؐ علی ؑ ابن ابی طالب حسن ؑ اور حسین ؑ اور ان کے جانشینوں کے آگے سراپاتسلیم ہیں ’ اور حق وحقیقت کے ان تمام نمائندوں کی بیعیت کے سلسلے میں ہم نے آپؐ سے جو وعدے وعیدکئے ہیں ان پر قائم ہیں۔ ہم دل سے جان سے زبان سے اور ہاتھوں سے بیعیت کرتے ہیں’ نہ ہم اس میں کسی تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ کبھی ایسی خواہش کو دل میں جگہ دینگے خدا کو ہم نے گواہ کیا ہے اور اس کی گواہی بہت کافی ہے اور آپؐ بھی گواہ رہیں۔
نیز ہم خدا کی تمام اطاعت شعارمخلوق کو خواہ وہ نظروں کے سامنے ہوں یا آنکھوں سے اوجھل گواہ بناتے ہیں۔ اسی طرح اﷲ کے سارے فرشتوں اس کے پُورے لشکر اور جملہ بندگانِ خدُا کوگواہی میں لیتے ہیں نیز اﷲہر گواہ سے بڑااور بہت بڑا گواہ ہے۔
لوگو بتاؤ اب تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟ یقین رکھو ’’ کہ پاک پروردگار ہر آواز کو سن لیتا ہے ۔ اور دل کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے ہر راز کو پا لیتاہے ’ لہذا جو ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے وہ اپنا بھلا کرتا ہے ۔ اور جو سیدھا راستہ چھوڑکر گمراہ ہو جاتا ہے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے ‘‘
(سورہ زمر۴۱)اور دیکھو بیعیت کرنے والا اﷲ کی بیعیت کرتا ہے اور اﷲ کا ہاتھ ہمیشہ اُونچا رہتا ہے۔‘‘ (سورہ فتح ۱۰)
لوگو اﷲ کا خوف کرو اور امیرالمومنین علی ؑ ابن ابی طالب حسن ؑ و حسین اور ان کے فرزندوں کی بیعیت کرلو ۔ یہ آئمہ کلمہ باقیہ ہیں۔ خداوندِعالم غداری کرنے والوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور وفا شعاروں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ عنایت فرماتا ہے اور ’’ جو معاہدہ شکنی کرتا ہے اسے خود ہی اس کا بھگتان بھگتنا پڑتا ہے۔‘’ (سورہ فتح ۱۰)
لوگومیں جو کچھ کہہ چکا ہوں اسے دہراؤ اور علی ؑ کو امیرالمومنین کی حیثیت سے سلامی دو ۔ اور کہو کہ ہم نے خدا اور اس کے رسولؐ کا حکم سن لیا ہے۔ اے لیجیئے حضور سر تسلیم خم ہے ۔ نیز عرض کرو پالنے والے ہم تجھ سے مغفرت کے طلب گار ہیں اورتیری ہی طرف ہماری بازگشت ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی۔ اور اگر وہ ہماری رہبری نہ کرتا تو ہم بھلا کہاں صحیح رستے سے لگ سکتے تھے۔
لوگو معبودِحقیقی نے علی ؑ ابن ابی طالب کو جو فضیلتیں دی ہیں وہ قرآن میں موجود ہیں یہ خوبیاں اس حد تک ہیں کہ انہیں کسی ایک مجلس میں نہیں بیان کیا جا سکتا لہذا یاد رکھو کہ اگر کسی شخص نے تمہارے سامنے ان کے فضائل بیان کئے تو تم ان کی تصدیق کرنا۔ لوگوجو کوئی اﷲاس کے رسولؐ علی ؑ ابن ابی طالب اور ان تمام اماموں کا جن کا میں نے ذکر کر چکا ہوں اطاعت گذار ہو تو اس کا کیا کہنا یہ اس کی بہت بڑی جیت ہے۔ لوگو دیکھو جو اشخاص علی ؑ کی بیعیت کرنے ان کے زیر فرمان ہونے اور امیرالمومنین کی حیثیت سے انہیں سلامی دینے میں پیش قدمی کریں گے وہ جنت کی فضاؤں میں اپنی کامیابی اور کامرانی کی بہاریں دیکھیں گے۔لوگو وہ بات کرو جس سے خدا کی خوشنودی میسر آئے۔ اگر تم لوگ اور زمین کی ساری آبادی بھی کافر ہو جائے تب بھی خدا کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ پالنے والے تو سارے مومنین کو بخش دے اور جو کفر کی راہ پر چلنے والے ہوں ان پر اپنا غضب نازل فرما ۔ والحمد ﷲ رب العالمین۔
لوگو معبودِحقیقی نے علی ؑ ابن ابی طالب کو جو فضیلتیں دی ہیں وہ قرآن میں موجود ہیں یہ خوبیاں اس حد تک ہیں کہ انہیں کسی ایک مجلس میں نہیں بیان کیا جا سکتا لہذا یاد رکھو کہ اگر کسی شخص نے تمہارے سامنے ان کے فضائل بیان کئے تو تم ان کی تصدیق کرنا۔ لوگوجو کوئی اﷲاس کے رسولؐ علی ؑ ابن ابی طالب اور ان تمام اماموں کا جن کا میں نے ذکر کر چکا ہوں اطاعت گذار ہو تو اس کا کیا کہنا یہ اس کی بہت بڑی جیت ہے۔ لوگو دیکھو جو اشخاص علی ؑ کی بیعیت کرنے ان کے زیر فرمان ہونے اور امیرالمومنین کی حیثیت سے انہیں سلامی دینے میں پیش قدمی کریں گے وہ جنت کی فضاؤں میں اپنی کامیابی اور کامرانی کی بہاریں دیکھیں گے۔لوگو وہ بات کرو جس سے خدا کی خوشنودی میسر آئے۔ اگر تم لوگ اور زمین کی ساری آبادی بھی کافر ہو جائے تب بھی خدا کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ پالنے والے تو سارے مومنین کو بخش دے اور جو کفر کی راہ پر چلنے والے ہوں ان پر اپنا غضب نازل فرما ۔ والحمد ﷲ رب العالمین۔
No comments:
Post a Comment