Swal_o_jwab
سوال و جواب
س عالم اسلام میں اس وقت کتنی فقہیں رائج ہیں ؟
ج اس وقت عالم اسلام میں پانچ فقہیں رائج ہیں ۔
۱ فقہ جعفریہ ۲ فقہ مالکیہ ۳ فقہ حنفیہ ۴ فقہ حنبس ان پانچ آئمہ کا تعلق مکہ سے ہے یا مدینہ منورہ سے؟
ج ان پانچ میں سے صرف دو کا ( حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ۔ امام مالک )
س امام مالک نے دوران نماز ہاتھ کہاں باندھنے کا حکم دیا ہے؟
ج امام مالک نے ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ لوگوں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا حکم کیوں
دیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میرے آباؤ اجداد مدینہ کے رہنے والے ہیں اور میں نے ان سے حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے بتایا کہ وہ نماز ہاتھ کھول کر پڑھا کرتے تھے اس لیے میں
نے یہ حکم دیا ہے۔
س ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کی ابتدا کب سے ہوئی ؟
ج ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کی ابتدا حضرت عمر ابن خطاب کے دور سے ہوئی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر سے ایک وفد آیا
اور ہاتھ باندھ کر کھڑاہوگیا اور اس ادا سے متاثر ہوکر حضرت عمر نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم دیا۔
س سجدہ گاہ استعمال کرنے کی وجہ کیا ہے ؟
ج اللہ تعالیٰ کو کیے جانے والے تمام سجدوں میں سے سب سے زیادہ محبوب سجدہ وہ ہوتا ہے جو پاک خاک پر کیا
جائے کیونکہ مٹی پر جبین رکھنا کمال انکسار اور شیوہ پیغمبری ہے۔ عام خاک پر سجدہ دینا جب باعث فضیلت ہے
تو اس خاک پر سجدہ دینا جس پر فرزند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور ان کے جانثاروں نے دین اسلام
کو بچانے کی خاطرسجدہ دیا کہ جس کی مثال رہتی دنیا تک ملنا ناممکن ہے تو کتنی فضلیت کا باعث ہو گی؟اس لیے
ہم نماز میں مدینہ و نجف و کربلاو مشہد کی مقدس خاک کی سجدہ گاہ بناکر رکھتے ہیں تاکہ ہماری پیشانی بھی نماز میں
اس خاک پر جھکے جس پر سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی پاک آل کی (کہ جن پر نماز میں اگر کوئی
مسلمان ان پر درود نہ پڑھے تو نماز نماز نہیں رہتی) نے اپنی پیشانیاں رکھی تھیں تاکہ ہم ان کی نمازوں کا لمس
اپنی نمازوں محسوس کر سکیں جس طرح دوران حج ہر مسلمان حجر اسود کو بوسہ دے کر محسوس کرتا ہے۔
س مبطلات روزہ (جن کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے) کتنے ہیں ؟
ج دس ہیں ۔ ۱۔ کھانا پینا ۲۔ جماع ۳۔ استمنا ۴۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل
پاک سے جھوٹی بات منسوب کرنا ۵۔ گردوغبار دھویں (تمباکو کا بھی کیوں نہ ہو ) کا حلق تک پہنچانا پان
وغیرہ چبانا سر کو پانی میں ڈبونا ۶۔ حالت حیض و نفاس و جنابت میں آذان صبح تک باقی رہنا حقنہ کرنا
عمدا قے کرنا گانا بجانا سننا ۔
س مکروہات روزہ کون کون سے ہیں ؟
ج روزہ بھوکے رہنے کا نام نہیں ہیں بلکہ اطاعت خداوندی کی تعمیل کا نام روزہ ہے ۔ لہذا ہر اس کام سے بھی
پرہیز کرنا ضروری ہے جس سے روزہ کے اثرات متاثر ہوتے ہیں ۔ جیسے آنکھوں میں دوائی ڈالنا یا سرمہ
لگانا جس کا ذائقہ حلق تک پہنچ جائے یا ناک میں روئی ڈالنا ۔ اسی طرح ہر وہ کام جو باعث کمزوری ہو جیسے
خون نکلوانا ( مگر عزاداری و ماتم داری اس سے مستثنیٰ ہے) خوشبو سونگھنا مالش کروانا عورت کاپانی میں بیھٹنا
پورے لباس کو تر کر لینا ہر وہ کام جس سے منہ میں خون آجائے مثلا دانت نکلوانا تر لکڑی سے مسواک کرنا
شہوانی حرکت کرنا غیرمحرم پر عمدا نگاہ کرنا ۔مزید تفصیل کے لیے کتب فقہ ملاحظہ فرماہیں
س حج جس پر فرض ہو اور وہ ادا نہ کرے تو فرمان معصوم ؑ کے تحت کتنا جرم ہے؟
ج ہر اس کام کی نافرمانی کرنا بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔
فرمان معصوم ؑ ہے کہ نیکی کے چھوٹے کام کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہ کرو ممکن ہے وہی چھوٹا کام ہی اللہ تعالیٰ
کی خوشنودی کا سبب ہو اور برائی کے کسی بھی کام کو چھوٹا سمجھ کر انجام نہ دو ممکن ہے وہی چھوٹا گناہ ہی عذاب
خداوندی کا سبب بن جائے ۔ لہذا نافرمانی خداوندکریم سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور جو حضرات
لا علمی یا غفلت کی بنا پر فریضہ حج واجب ہونے کے باوجود ادا نہیں کرتے ایسے افراد کے بارے میں امام
جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان اقدس ہے کہ جو آدمی استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ اندھااور
یہودونصاریٰ کے دین کے ساتھ محشور ہوگا۔
س اسلام میں زکوٰۃ اور خمس کی کیا اہمیت ہے
ج اللہ جل جلالہ نے زکواۃ و خمس کو واجب قرار دیا ہے۔
س زکواۃ اور خمس واجب کیوں ہوئے؟
ج مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر اسلامی احکامات پر کیوں اگر مگر کیسے کا سوال کرنا تو نہیں چاہیے
کیونکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے ہمیں تو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں بھی اس قابل
سمجھا ہے کہ اپنے عطاکردہ نعمتوں میں سے ہی ہمارے فاہدے کے لیے ہی ہمیں خرچ کرکے اس میں
اضافہ کرنے کا سبب عطا کردیا ہے۔ جہاں تک سوال ہے خمس و زکواۃ کے واجب ہونے کا تو اسلام ایک
لیہ ۵ فقہ شافیہ
مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ جس میں کسی بھی حالت و کیفیت و صورت کے لوگوں کو نظر اندازنہیں کیا گیا ہے
اسلام میں حقوق اللہ سے لیکر ہمسائیوں کے حقوق تک کو فراموش نہیں کیا گیا ۔ اسلام میں سب سے اولین
ترجیح انسانیت کو دی گئی ہے اور انسانیت کی حساس ترین شکل غریب انسان کی غربت کی ہے۔ اس لیے
اسلام نے غریب کی غربت کو سامنے رکھا اور انہیں مرکزیت عطا فرمائی ۔ اسی لیے اللہ نے اپنی عبادات
خاص کے ساتھ سینکڑوں مقامات پر غریب کے حق کا اپنی عبادت کی طرح ذکر کیا ہے ۔ بار بار نماز اور زکواۃ
کا ذکر فرمایا ہے۔
حکومت اسلامیہ میں اللہ جل جلالہ نے غربا کی دو اقسام قرار دی ہیں ۔ ۱ ایک طبقہ تو عام مسلمانوں کا ہے
اللہ جل جلالہ نے ان کی بحالی کے لیے زکواۃ کا حکم دیا کہ ہر صاحب نصاب زکواۃادا کرے اور غربا میں
اسے تقسیم کیا جائے۔
۲ ۔ اسلام کے دائرے میں ٖغریبوں کا جو دوسرا طبقہ سادات کاہے اللہ جل جلالہ نے اپنے حبیب صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے احترام نسل کی وجہ سے معزز ومکرم فرما کر ان پر صدقات کو حرام قرار دیا کیونکہ زکواۃ بھی
ایک صدقہ تھا اور ہے اس لیے وہ لوگ جو آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے تھے یا ہیں وہ اس سے
( زکواۃ۔صدقات ) سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے خالق اکبر نے غریب سادات کی امداد کے لیے
پوری امت کو حکم دیا کہ * واعلموا انما ٖغنمتم من شیء فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ و لیتامی والمساکین
وابن السبیل۔
س کیا غیر سیدکے لیے بھی خمس استعمال کرنے کی اجازت ہے؟
ج آئمہ کرام ؑ نے سادات کے بارے میں فرمایا ہے حرم علیھم الصدقۃ اس فقرے سے ثابت ہوتا ہے کہ
یہ خمس صرف سادات کا حق ہے اور یہ دوسروں پر اس طرح حرام ہے جس طرح سادات پر صدقہ حرام ہے۔
س اگر کوئی خمس و زکوٰۃ ادا نہ کرے مگر خیرات صدقات دے تو اس کے یہ اعمال کیا قابل قبول ہونگے؟
ج خمس و زکواۃ کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی بجائے اپنی مرضی کرنا نافرمانی
ہے تابعداری نہیں ہے۔ جزا کے قابل تابعداری ہوتی ہے نافرمانی نہیں۔ خمس و زکواۃ کے ادا کرنے کی
تاکید اللہ تعالیٰ نی فرمائی ہے اور اس پر عمل کرنا ہر صاحب عقل و ایمان پر واجب ہے جو ایسا نہیں کرتے
وہ نا صرف مجرم ہیں بلکہ وہ بہت بڑی غلطی پر بھی ہیں ۔ ان کی مثال اس طرح ہے جیسے انسان کسی جانور
کو حلال و ذبح کرتا ہے اور ذبح کئے بغیر تو مال حرام ہوتا ہے اسی طرح زکواۃ و خمس اداکئے بغیر مال حرام
رہتا ہے اب کار خیر میں استعمال تواس کے بعدہوناہے کیونکہ اس سے پہلے تو مال اس قابل ہی نہیں تھا
کہ اسے کارخیر میں لگایا جاسکے۔ ہاں زکواۃ و خمس کی ادائیگی کے بعد وہ حلال ہوا ہے۔ اب اگر کوئی اس
سے نیک کام کرتا ہے مومن بھائی کی مدد کرتا ہے تو اب قابل جزا ہوگا ورنہ اس کے بغیر تو ایسے ہی ہے
کہ جیسے کوئی طبعی موت مرنے والی حرام و مردار گائے اللہ کے نام پر خیرات کردے یا غربا میں تقسیم کرکے
جنت کی امید بھی رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مال پاک نہ ہو صدقات اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا بے سود
ہوتاہے بلکہ مزید گناہگار بناتا ہے
ج اس وقت عالم اسلام میں پانچ فقہیں رائج ہیں ۔
۱ فقہ جعفریہ ۲ فقہ مالکیہ ۳ فقہ حنفیہ ۴ فقہ حنبس ان پانچ آئمہ کا تعلق مکہ سے ہے یا مدینہ منورہ سے؟
ج ان پانچ میں سے صرف دو کا ( حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ۔ امام مالک )
س امام مالک نے دوران نماز ہاتھ کہاں باندھنے کا حکم دیا ہے؟
ج امام مالک نے ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ لوگوں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا حکم کیوں
دیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میرے آباؤ اجداد مدینہ کے رہنے والے ہیں اور میں نے ان سے حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے بتایا کہ وہ نماز ہاتھ کھول کر پڑھا کرتے تھے اس لیے میں
نے یہ حکم دیا ہے۔
س ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کی ابتدا کب سے ہوئی ؟
ج ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کی ابتدا حضرت عمر ابن خطاب کے دور سے ہوئی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر سے ایک وفد آیا
اور ہاتھ باندھ کر کھڑاہوگیا اور اس ادا سے متاثر ہوکر حضرت عمر نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم دیا۔
س سجدہ گاہ استعمال کرنے کی وجہ کیا ہے ؟
ج اللہ تعالیٰ کو کیے جانے والے تمام سجدوں میں سے سب سے زیادہ محبوب سجدہ وہ ہوتا ہے جو پاک خاک پر کیا
جائے کیونکہ مٹی پر جبین رکھنا کمال انکسار اور شیوہ پیغمبری ہے۔ عام خاک پر سجدہ دینا جب باعث فضیلت ہے
تو اس خاک پر سجدہ دینا جس پر فرزند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور ان کے جانثاروں نے دین اسلام
کو بچانے کی خاطرسجدہ دیا کہ جس کی مثال رہتی دنیا تک ملنا ناممکن ہے تو کتنی فضلیت کا باعث ہو گی؟اس لیے
ہم نماز میں مدینہ و نجف و کربلاو مشہد کی مقدس خاک کی سجدہ گاہ بناکر رکھتے ہیں تاکہ ہماری پیشانی بھی نماز میں
اس خاک پر جھکے جس پر سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی پاک آل کی (کہ جن پر نماز میں اگر کوئی
مسلمان ان پر درود نہ پڑھے تو نماز نماز نہیں رہتی) نے اپنی پیشانیاں رکھی تھیں تاکہ ہم ان کی نمازوں کا لمس
اپنی نمازوں محسوس کر سکیں جس طرح دوران حج ہر مسلمان حجر اسود کو بوسہ دے کر محسوس کرتا ہے۔
س مبطلات روزہ (جن کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے) کتنے ہیں ؟
ج دس ہیں ۔ ۱۔ کھانا پینا ۲۔ جماع ۳۔ استمنا ۴۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل
پاک سے جھوٹی بات منسوب کرنا ۵۔ گردوغبار دھویں (تمباکو کا بھی کیوں نہ ہو ) کا حلق تک پہنچانا پان
وغیرہ چبانا سر کو پانی میں ڈبونا ۶۔ حالت حیض و نفاس و جنابت میں آذان صبح تک باقی رہنا حقنہ کرنا
عمدا قے کرنا گانا بجانا سننا ۔
س مکروہات روزہ کون کون سے ہیں ؟
ج روزہ بھوکے رہنے کا نام نہیں ہیں بلکہ اطاعت خداوندی کی تعمیل کا نام روزہ ہے ۔ لہذا ہر اس کام سے بھی
پرہیز کرنا ضروری ہے جس سے روزہ کے اثرات متاثر ہوتے ہیں ۔ جیسے آنکھوں میں دوائی ڈالنا یا سرمہ
لگانا جس کا ذائقہ حلق تک پہنچ جائے یا ناک میں روئی ڈالنا ۔ اسی طرح ہر وہ کام جو باعث کمزوری ہو جیسے
خون نکلوانا ( مگر عزاداری و ماتم داری اس سے مستثنیٰ ہے) خوشبو سونگھنا مالش کروانا عورت کاپانی میں بیھٹنا
پورے لباس کو تر کر لینا ہر وہ کام جس سے منہ میں خون آجائے مثلا دانت نکلوانا تر لکڑی سے مسواک کرنا
شہوانی حرکت کرنا غیرمحرم پر عمدا نگاہ کرنا ۔مزید تفصیل کے لیے کتب فقہ ملاحظہ فرماہیں
س حج جس پر فرض ہو اور وہ ادا نہ کرے تو فرمان معصوم ؑ کے تحت کتنا جرم ہے؟
ج ہر اس کام کی نافرمانی کرنا بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔
فرمان معصوم ؑ ہے کہ نیکی کے چھوٹے کام کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہ کرو ممکن ہے وہی چھوٹا کام ہی اللہ تعالیٰ
کی خوشنودی کا سبب ہو اور برائی کے کسی بھی کام کو چھوٹا سمجھ کر انجام نہ دو ممکن ہے وہی چھوٹا گناہ ہی عذاب
خداوندی کا سبب بن جائے ۔ لہذا نافرمانی خداوندکریم سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور جو حضرات
لا علمی یا غفلت کی بنا پر فریضہ حج واجب ہونے کے باوجود ادا نہیں کرتے ایسے افراد کے بارے میں امام
جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان اقدس ہے کہ جو آدمی استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ اندھااور
یہودونصاریٰ کے دین کے ساتھ محشور ہوگا۔
س اسلام میں زکوٰۃ اور خمس کی کیا اہمیت ہے
ج اللہ جل جلالہ نے زکواۃ و خمس کو واجب قرار دیا ہے۔
س زکواۃ اور خمس واجب کیوں ہوئے؟
ج مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر اسلامی احکامات پر کیوں اگر مگر کیسے کا سوال کرنا تو نہیں چاہیے
کیونکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے ہمیں تو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں بھی اس قابل
سمجھا ہے کہ اپنے عطاکردہ نعمتوں میں سے ہی ہمارے فاہدے کے لیے ہی ہمیں خرچ کرکے اس میں
اضافہ کرنے کا سبب عطا کردیا ہے۔ جہاں تک سوال ہے خمس و زکواۃ کے واجب ہونے کا تو اسلام ایک
لیہ ۵ فقہ شافیہ
مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ جس میں کسی بھی حالت و کیفیت و صورت کے لوگوں کو نظر اندازنہیں کیا گیا ہے
اسلام میں حقوق اللہ سے لیکر ہمسائیوں کے حقوق تک کو فراموش نہیں کیا گیا ۔ اسلام میں سب سے اولین
ترجیح انسانیت کو دی گئی ہے اور انسانیت کی حساس ترین شکل غریب انسان کی غربت کی ہے۔ اس لیے
اسلام نے غریب کی غربت کو سامنے رکھا اور انہیں مرکزیت عطا فرمائی ۔ اسی لیے اللہ نے اپنی عبادات
خاص کے ساتھ سینکڑوں مقامات پر غریب کے حق کا اپنی عبادت کی طرح ذکر کیا ہے ۔ بار بار نماز اور زکواۃ
کا ذکر فرمایا ہے۔
حکومت اسلامیہ میں اللہ جل جلالہ نے غربا کی دو اقسام قرار دی ہیں ۔ ۱ ایک طبقہ تو عام مسلمانوں کا ہے
اللہ جل جلالہ نے ان کی بحالی کے لیے زکواۃ کا حکم دیا کہ ہر صاحب نصاب زکواۃادا کرے اور غربا میں
اسے تقسیم کیا جائے۔
۲ ۔ اسلام کے دائرے میں ٖغریبوں کا جو دوسرا طبقہ سادات کاہے اللہ جل جلالہ نے اپنے حبیب صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے احترام نسل کی وجہ سے معزز ومکرم فرما کر ان پر صدقات کو حرام قرار دیا کیونکہ زکواۃ بھی
ایک صدقہ تھا اور ہے اس لیے وہ لوگ جو آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے تھے یا ہیں وہ اس سے
( زکواۃ۔صدقات ) سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے خالق اکبر نے غریب سادات کی امداد کے لیے
پوری امت کو حکم دیا کہ * واعلموا انما ٖغنمتم من شیء فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ و لیتامی والمساکین
وابن السبیل۔
س کیا غیر سیدکے لیے بھی خمس استعمال کرنے کی اجازت ہے؟
ج آئمہ کرام ؑ نے سادات کے بارے میں فرمایا ہے حرم علیھم الصدقۃ اس فقرے سے ثابت ہوتا ہے کہ
یہ خمس صرف سادات کا حق ہے اور یہ دوسروں پر اس طرح حرام ہے جس طرح سادات پر صدقہ حرام ہے۔
س اگر کوئی خمس و زکوٰۃ ادا نہ کرے مگر خیرات صدقات دے تو اس کے یہ اعمال کیا قابل قبول ہونگے؟
ج خمس و زکواۃ کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی بجائے اپنی مرضی کرنا نافرمانی
ہے تابعداری نہیں ہے۔ جزا کے قابل تابعداری ہوتی ہے نافرمانی نہیں۔ خمس و زکواۃ کے ادا کرنے کی
تاکید اللہ تعالیٰ نی فرمائی ہے اور اس پر عمل کرنا ہر صاحب عقل و ایمان پر واجب ہے جو ایسا نہیں کرتے
وہ نا صرف مجرم ہیں بلکہ وہ بہت بڑی غلطی پر بھی ہیں ۔ ان کی مثال اس طرح ہے جیسے انسان کسی جانور
کو حلال و ذبح کرتا ہے اور ذبح کئے بغیر تو مال حرام ہوتا ہے اسی طرح زکواۃ و خمس اداکئے بغیر مال حرام
رہتا ہے اب کار خیر میں استعمال تواس کے بعدہوناہے کیونکہ اس سے پہلے تو مال اس قابل ہی نہیں تھا
کہ اسے کارخیر میں لگایا جاسکے۔ ہاں زکواۃ و خمس کی ادائیگی کے بعد وہ حلال ہوا ہے۔ اب اگر کوئی اس
سے نیک کام کرتا ہے مومن بھائی کی مدد کرتا ہے تو اب قابل جزا ہوگا ورنہ اس کے بغیر تو ایسے ہی ہے
کہ جیسے کوئی طبعی موت مرنے والی حرام و مردار گائے اللہ کے نام پر خیرات کردے یا غربا میں تقسیم کرکے
جنت کی امید بھی رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مال پاک نہ ہو صدقات اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا بے سود
ہوتاہے بلکہ مزید گناہگار بناتا ہے
No comments:
Post a Comment