Friday, 16 August 2013

تہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں: کہ الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے تہران تشریف لائے تو

Sawal_o_jwab






تہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں: کہ الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں. علامہ نے میری دعوت قبول کرلی. میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا. رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جاسکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے. علامہ امینی نے فرمایا:</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>«میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا. اس دوران ایک سنی تاجر سے شناسائی ہوئی. وہ نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی... ایک روز انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا. میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کے تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں. بلندپایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تجار و دکاندار؛ غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں. کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جارہا؟</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے»؟</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے.</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لئے یھی حدیث کافی ہے. قاضی القضات نے خاموشی اختیار کرلی...</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں؟</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>کہنے لگے: "انہا مطہرة بنص الکتاب". نص قرآن کے مطابق سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور حضرت زہراء (ص) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں.</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>میں نے کہا: "حضرت فاطمہ حکام وقت سے ناراض و غضبناک ہوکر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہ تھے؟ یا پھر معاذاللہ حضرت فاطمہ (س) امام وقت کی معرفت حاصل کئے بغیر جاہلیت کی موت مریں!؟</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء کا غضب اور آپ (س) کی ناراضگی صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ حکومت وقت باطل تھی... اور اگر کہتے کہ سیدہ (س) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ (س) معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی. جبکہ آپ (ص) کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نی دی ہے.</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے؟</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے!</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>میں نے کہا: آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول (ص) سمجھتے ہیں...</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے: «شیخنا اسکت؛ قد افتضحنا = ہمارے شیخ! خاموش ہوجاؤ کہ ہم رسوا ہوگئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کردیا"».</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انہوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا.</p><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br /><br />
<p>یہ حکایت صرف اس لئے نقل کی گئی کہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند حدیث (من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة) کو قبول کرتے ہیں. اور یہ وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عصر اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت کا حصول واجب ہے اور مسلمانوں کو بہرحال معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کس سے حاصل کررہے ہیں اور ان سب کو جاننا چاہئے کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے؟
تہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں: کہ الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں. علامہ نے میری دعوت قبول کرلی. میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا. رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جاسکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے. علامہ امینی نے فرمایا:
«میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا. اس دوران ایک سنی تاجر سے شناسائی ہوئی. وہ نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی… ایک روز انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا. میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کے تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں. بلندپایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تجار و دکاندار؛ غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں. کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جارہا؟
میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے»؟
انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے. میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لئے یھی حدیث کافی ہے. قاضی القضات نے خاموشی اختیار کرلی
تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں؟
کہنے لگے: “انہا مطہرة بنص الکتاب”. نص قرآن کے مطابق سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور حضرت زہراء (ص) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں.
میں نے کہا: “حضرت فاطمہ حکام وقت سے ناراض و غضبناک ہوکر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہ تھے؟ یا پھر معاذاللہ حضرت فاطمہ (س) امام وقت کی معرفت حاصل کئے بغیر جاہلیت کی موت مریں!؟
حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء کا غضب اور آپ (س) کی ناراضگی صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ حکومت وقت باطل تھی… اور اگر کہتے کہ سیدہ (س) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ (س) معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی. جبکہ آپ (ص) کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نی دی ہے.
حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے؟
مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے!
میں نے کہا: آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول (ص) سمجھتے ہیں…
ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے: «شیخنا اسکت؛ قد افتضحنا = ہمارے شیخ! خاموش ہوجاؤ کہ ہم رسوا ہوگئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کردیا”».
ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انہوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا.
یہ حکایت صرف اس لئے نقل کی گئی کہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند حدیث (من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة) کو قبول کرتے ہیں. اور یہ وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عصر اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت کا حصول واجب ہے اور مسلمانوں کو بہرحال معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کس سے حاصل کررہے ہیں اور ان سب کو جاننا چاہئے کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے؟
سوال صراط مستقیم سے مراد کون ہیں ؟اور ان کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟
ج امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ صراط مستقیم اللہ کی معرفعت کا راستہ ہے ۔اور یہ دو راستے ہیں ایک راستہ دنیا میں ہے اور ایک آخرت میں دنیا میں تو وہ امام ہےجس کی اطاعت مخلوق پر واجب کی گئی ہے اور آخرت میں راستہ وہ پل ہے جو جہنم پرہے دنیا میں جس نے امام کی معرفعت حاصل کرلی اور اس کی اطاعت کی وہ آخرت
میں پل آخرت سے آسانی سے گذر جائے گا اور جس نے دنیا میں امام کی معرفعت حاصل نہ کی آخرت میں پل آخرت سے اس کے قدم ڈگمگا جائیں گے اور جہنم میں گر جائے گا امام علی زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ اور حجت اللہ کے درمیان حجاب نہیں ہے اور نہ اللہ حجت سے درپردہ وحجاب ہوتا ہے ہم اللہ کے ابواب ہیں اور ہم صراط مستقیم ہیں اور ہم اس کے مخزن علم ہیں اور ہم اس کی وحی کی زبان اور مترجم ہیں اور ہم ارکان توحید ہیں اور ہم اس کے خزانہ اسرار ہیں ۔
تمام قرآنی حروف مقطعات جمع کرکے ان میں سے مکررحروف گرادیئے جائیں توچودہ حروف باقی رہتے ہیں جن سے یہ عبارت بنتی ہے ۔ صراط علی حق نمسکہ علی کا راستہ
حق ہے جس کی ہم پیروی کرتے ہیں ۔فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ القرآن مع علی و علی مع القرآن قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ ہیں ۔ اور قرآن مجید کے بارےمیں ارشاد خداوندی ہے کہ الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ الم قرآن وہ کتاب ہےجس میں ذرہ بھر کا بھی شک نہیں ہے ھدی للمتقین قرآن متقیوں کو ہدایت کرتی
ہے ۔ اب جو بھی ہدایت کا طالب ہے اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن کی اطاعت کرے اسی طرح اہلبیت اطہار کی اطاعت کرنا بھی ہر طالب ہدایت کیلئے لازم ہے۔
(معرفتہ المعصومین بالقرآن صفحہ ۷ ؛)
شیعہ مسلمانوں کے لیے پیغامحضرت علی(کرم الله وجہہ) نے فرمایا:-
** “میں اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے لگو_ بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اور حالات کو بیان کرو تا کہ بات بھی درست ہو اور حق کی حجت بھی تمام ہو جائے_ نیز یہ دعا کرو کہ اے الله ہمارا اور ان کا خون محفوظ فرما اور معاملات کی اصلاح کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستے پر لگا تا کہ ناواقف لوگ حق کو پہچان لیں اور اہل باطل اپنی سرکشی سے باز آ جائیں”_
نہج البلاغہ، خطبہ 206
** “جہاں تک ان محترمہ(حضرت عائشہ رض) کا تعلق ہے تو یہ(رض) نسوانی طرز فکر کی لپیٹ میں ہیں اور ان(رض) کا دل مخالفت سے بھرپور ہے_ جو کچھ ان(رض) سے میرے خلاف کروایا گیا، اگر ان(رض) سے یہ سب کسی اور کے خلاف کرنے کا کہا جاتا تو شاید نہ کرتیں_ لیکن پھر بھی ہم ان(رض) کی حرمت اور مقام کا احترم کرتے ہیں اور ان(رض) کے معاملے کو الله(ج) کے سپرد کرتے ہیں”_
نہج البلاغہ، خطبہ 155
٭فرمودات جناب زھراء (سلام اللہ علیھا)٭ہم شہادت اور ولادت کے ایّام میں تعزیت اور تہنیت تو پیش کرتے ہیں لیکن ہم ان ذوات مقدّسہ کے فرامین اور ان کی سیرت پر غور نہیں کرتے۔ آئیے جناب زھراء(س) کے ایّام ہیں، آج ہم ان کے فرمودات کو دل کی گہرائیوں سے پڑھتے ہیں تاکہ ہم بہتر شیعہ بن کر معصومین(ع) کے لئے فخر کا باعث بن سکیں؛1) قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام: مَن أصعَدَ إلَى اللَّهِ خالِصَ عِبادَتِهِ أهبَطَ اللَّهُ إلَيهِ أفضَلَ مَصلَحَتِهِحضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا: جو شخص خدا وند عالم کی خلوص کے ساتھ عبادت کرے گا خدا وند عالم اپنی بہترین مصلحت اس کو عنایت کرے گا۔بحار الأنوار؛ ج 70، ص 2492) قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام: فَرَضَ اللَّهُ الصَّلاةَ تَنزِيهاً مِنَ الكِبرِحضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا: اللہ نے نماز کو تکبر سے دور رہنے کے لیے فرض قرار دیا ہے۔بحار الأنوار؛ ج 82، ص 2093) قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام: فَجَعَلَ اللَّهُ… إطاعَتَنا نِظاماً لِلمِلَّةِ و إمامَتَنا أماناً لِلفُرقَةِحضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا: اللہ نے ہماری اطاعت کو قوم و ملت کے لیے نظام اور ہماری امامت کو اختلاف سے بچنے کا سبب قرار دیا۔الإحتجاج طبرسی؛ ج 1، ص 1344) قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام: خِيارِكُم أليَنُكُم مَناكِبَهُ و أكرَمُهُم لِنِسائِهِم
حضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا: تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں اور اپنی عورتوں کا احترام کرتے ہیں۔
دلائل الإمامه؛ ص 76
××حسین ع کی سواری ذوالجناح کے بارے میں کلام××سید العلماء فقیہ العصر استاذ المجتہدین و زعیم ملت جعفریہ عالی جناب سید علی نقی نقوی (نقن صاحب) کا ایک کتابچہ نظر سے گذرا جس میں ذوالجناح کے احوال کو معتبر تاریخ سے رقم کیا اور ساتھ ہی بڑے عمدہ انداز میں اسلامی و انسانی تاریخ سے اس وفادار سواری کا مقارنہ کیا- سلسلہ کلام کچھ یوں ہے کہ:١، ہم اصحاب کہف کے کلب کو نہیں بھولتے کیونکہ یہ کلب کی وفاداری تھی جس کو خدا نے اس نظر تحسین سے دیکھا کہ اس کا ذکر قرآن مجید میں کیا-٢، یہ ذبیحہ ابراہیم ع کی یاد ہے کہ ہر سال مسلمان عید الاضحی میں اس ‘یاد ذبیحہ‘ کو تازہ کرتے ہیں اور اس دنبہ کے ذبیحہ کی تذکیر کی خاطر قربانی پیش کرتے ہیں-٣، عیسائی حضرات عیسیٰ ع کی سواری جس کے ذریعہ وہ داخل یروشلم ہوئے اس کو بڑی اہمیت دیتے ہیں-٤، مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو اونٹ امی عائشہ اتنا پسند آیا کہ جنگ جمل میں اس اونٹ کو اپنا مرکز قرار دیا اور اس اونٹ کی حفاظت کی خاطر بڑی تگ و دو کی-لہذاء ان امثال میں ہم نے دیکھا کہ دراصل ان جانوروں کی پرستش کی خاطر کوئی شخص بھی انہیں یاد نہیں کرتا بلکہ فقط ان جانوروں سے مربوط یادیں ہوتی ہیں جو انسان کے اندر جذبہ وفاداری و ایثار پیدا کرتی ہے- چنانچہ یہی وہ ذوالجناح یوم طف تھا جس نے:١، حسین ع کی سواری کا کام انجام دیا اور یہ یاد رکھیں کہ جتنا حسین ع پر حملہ شدید تر ہوا کرتا تھا تو اس کی زد میں حسین ع کی شخصیت کے بعد ثانوی اعتبار سے ہر حال میں سواری یعنی ذوالجناح آتا تھا-٢، حسین ع کی شہادت کی خبر خیمہ حسینی ع میں پہنچائی جب اس نے اپنے ماتھے پر خون کو ملا اور بغیر سوار کے خیمہ آیا-پس ان نکات مفیدہ کو بیان کرنے کا مقصد فقط اس شبیہ ذوالجناح کے احترام کا درس دینا ہے اور اس کے حقیقی مقصد کو پہچاننا ہے کہ اس کے ذریعے وفا اور ایثار کا جذبہ پیدا ہو۔۔۔ اگر ہر عزادار رسمی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر وفائے ذوالجناح کو اپنائے تو یقینا بڑے مقصد کو حاصل کرسکتا ہے- آخر میں سید العلماء و فخر المجتہدین سید علی نقی نقوی اعلی اللہ مقامہ کا یہ قول نقل کرتا ہوں:یہی (ذوالجناح) وہ یادگار ہے جو حسین ع بن علی ع کی عزاداری کے سلسلے میں ‘‘ذوالجناح‘‘ کیاصحاب رسول اکرم پر حضرت علی علیہ السلام کو فوقیت کیوں دی جاتی ہے ؟
جواب

علی علیہ السلام کی مودت میں نبی ﷺ کو خطبے کا حکم
حضرت جابر بن عبداللہ انصار رضی اللہ عنہ نے روایت بیان کی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ﷺ پر حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ : آپؐ کھڑے ہو جائیں اور اپنے اصھاب کے سامنے علی علیہ السلام کی فضیلت کا خطبہ دیں، تاکہ وہ آپؐ کے بعد آپؐ کی طرف سے اپنے بعد آنے ووں کے لیے تبلیغ کر سکیں اور تمام ملائکہ کو حکم دیا گیا ہے کہ جو 

No comments:

Post a Comment