Thursday, 22 August 2013

علی علیہ السلام کی مودت میں نبی ﷺ کو خطبے کا حکم

حضرت جابر بن عبداللہ انصار رضی اللہ عنہ نے روایت بیان کی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ﷺ پر حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ : آپؐ کھڑے ہو جائیں اور اپنے اصھاب کے سامنے علی علیہ السلام کی فضیلت کا خطبہ دیں، تاکہ وہ آپؐ کے بعد آپؐ کی طرف سے اپنے بعد آنے ووں کے لیے تبلیغ کر سکیں اور تمام ملائکہ کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ ہم بیان کریں وہ اس کو غور سے سنیں۔
اے محمد ؐ ! اللہ نے آپؐ کی طرف وحی فرمائی ہے کہ جو شخص آپؐ کے حکم کی مخالفت کرے گا اس کے لیے جہنم کو لازم قرار دیا گیا ہے اور جو شخص آپؐ کی اطاعت کرے گا اس کی جزا جنت قرار دی گئی ہے۔ پس رسولِ خدا ﷺ نے اپنے منادی کو ندا کا حکم دیا۔ پس منادی نے نمازِ با جماعت کی ندا دی۔ پس لوگ جمع ہو گئے اور رسول ِ خدا ﷺ اپنے گھر سے باہر تشریف لائے اور منبر پر تشریف لے گئے اور جو سب سے پہلے کلمات آپؐ نے ادا فرمائے وہ یوں تھے:
اعوذ باللہ من الشیطان ارجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم
اور پھر فرمایا : اے لوگو! میں بشیر ہوں (بشارت دینے والا) میں نذیر ہوں (یعنی ڈرانے والا) میں بر حق نبی ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسے مد کے حق میں تبلیغ کرنے والا ہوں جس کا گوشت میرا گوشت ہے جس کا خون میرا خون ہے۔ وہ علم کا خزانہ ہے اور اس کو اللہ نے اس امت سے منتخب فرمایا ہے اور اس کو چن لیا ہے اس کو اپنا محبوب بنایا ہے اور اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ مجھے اور اس کو ایک مٹی سے بنایا ہے۔ پس مجھے اس نے رسالت کے ساتھ فضیلت عطا فرمائی ہے اور اس کو میرے تبلیغ کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ مجھے علم کا شہر قرار دیا ہے اور اس کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے اور اس کا علم کا خازن (یعنی خزانہ دار) قرار دیا ہے اور احکامِ دین کو اس سے لیا جائے گا اور اس کو وصایت و وصی قرار دیا گیا ہے اور اس کے امر کو ظاہر کیا ہے اور کی عداوت کے خوف کو بھی۔ اور اس کی موالات کو واجب قرار دیا ہے۔ اور اللہ نے تمام لوگوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جو اس سے عداوت رکھے گا گویا اس نے مجھ سے عداوت کی ہے اور جس نے اس سے دوستی کی اس نے مجھ سے دوستی کی ہے۔ جس نے اس سے بُغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی اور جس نے اس کی نا فرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی، اور جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے۔ جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے اس سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میرے اطاعت کی۔ اور جس نے اس کو راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا اور جس نے اس کی حفاظت کی اس نے میری حفاظت کی۔ جس نے اس سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی۔ جس نے اس کی مدد کی اس نے میری مدد کی۔ اور جس نے اس کا ارادہ کیا اس نے میرا ارادہ کیا اور جس نے اس کو روکا اس نے مجھے روکا۔
پھر فرمایا : اے لوگو ! جس کا تم کو اس کے بارے میں حکم دیا جائے اس کی اطاعت کرو اور میں تم کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں ( یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضرا وما عملت من سوء تودو لو ان بینھا وبینہ امدا بعیدا ویو ذرکم اللہ نفسہ)
’’ جس دن ہر نفس نے جو کچھ اس نے نیکی انجام دی ہو گی اس کو وہ اپنے سامنے پائے گا اور جو کچھ اس نے برا کام کیا ہو گا اس کو بھی اپنے سامنے پائے گا اور وہ خواہش کرے گا کہ اس کے اور اس کے عمل کے درمیان بہت زیادہ دوری ہو جائے اور اللہ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے ‘‘۔
رسول خدا ﷺ نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ ا اور فرمایا :
’’ اے لوگو! یہ ہے مومنین کا مولا، کافروں کو قتل کرنے والا اور یہ سارے جہانوں پر اللہ کی حجت ہے اور فرمایا : اے میرے اللہ ! میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے اور یہ تیرے بندے ہیں اور تو ان کی اصلاح پر قدرت و طاقت رکھتا ہے۔ اپنی رحمت کے ساتھ ان کی اصلاح فرما کیونکہ تو ہی رحم کرنے والا ہے‘‘۔
  1. پھر آپ ؐ منبر سے نیچے تشریف فرما ہوئے پس حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور عرض کیا : یا محمد ﷺ ! اللہ آپ کو سلام کہہ رہا ہے اور فرماتا ہے کہ آپؐ نے خیر کی تبلیغ کی ہے اس پر آپ ﷺ کے رب کی طرف سے آپؐ کے لیے جزائے خیر ہے۔ پس آپ ؐ نے اپنے رب کی رسالت کی تبلیغ فرمائی ہے اور اپنی امت کو نصیحت فرمائی ہے اور مومنین کو خوش کیا ہے اور کافرین کو ذلیل و رسوا کیا ہے۔ اے محمد ﷺ ! تحقیق یہ آپؐ کے چچا زاد کا ان کی وجہ سے امتحان ہو گا اور ان میں اُن کو آزمایا جائے گا۔
حوالہ : امالی شیخ المفید - مجلس 9 - حدیث 2
2

"فضیلت_ علی صلوات اللہ علیہ"ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ: ﻳﺎ ﺟﺎﺑﺮ ﺃﻱ ﺍﻻﺧﻮﺓ ﺃﻓﻀﻞ؟ ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ: ﺍﻟﺒﻨﻴﻦ ﻣﻦ ﺍﻷﺏ ﻭﺍﻻﻡ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﺎ ﻣﻌﺎﺷﺮ ﺍﻷﻧﺒﻴﺎﺀ ﺇﺧﻮﺓ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻓﻀﻠﻬﻢ ﻭﺃﺣﺐ ﺍﻻﺧﻮﺓ ﺇﻟﻲ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻓﻬﻮ ﻋﻨﺪﻱ ﺃﻓﻀﻞ ﻣﻦ ﺍﻷﻧﺒﻴﺎﺀ، ﻓﻤﻦ ﺯﻋﻢ ﺃﻥ ﺍﻷﻧﺒﻴﺎﺀ ﺃﻓﻀﻞ ﻣﻨﻪ، ﻓﻘﺪ ﺟﻌﻠﻨﻲ ﺃﻗﻠﻬﻢ، ﻭﻣﻦ ﺟﻌﻠﻨﻲ ﺃﻗﻠﻬﻢ ﻓﻘﺪ ﻛﻔﺮ، ﻷﻧﻲ ﻟﻢ ﺃﺗﺨﺬ ﻋﻠﻴﺎ ﺃﺧﺎ ﺇﻻ ﻟﻤﺎ ﻋﻠﻤﺖ ﻣﻦ ﻓﻀﻠﻪ، ﻭﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ ﺑﺬﻟﻚ.ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ (ﺹ) ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﮮ ﺟﺎﺑﺮ، ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ بھائی ﮐﻮﻥ ہوتا ہے ؟ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ : ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﻭﺍﻟﺪ ﻭ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ہو.ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ہم ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ بھائی ہیں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ہوں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ لئے ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﯿﺮﺍ بھائی ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐُ (ص) ہے. ﭘﺲ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ہے.ﺟﻮ ﯾﮧ ﮔﻤﺎﻥ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯽ (صُ) ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ہے ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺳﮯ ﮐﻤﺘﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﺎ ہے ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﻤﺘﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﺎ ہے ﻭﮦ ﮐﻔﺮ ﮐﺮﺗﺎ ہے.ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﻠﯽُ (ص) ﮐﻮ ﻣﯿﮟُ ﻧﮯ بھائی نہیں ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﻓﻀﻠﯿﺖ ﮐﻮ نہیں ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ.
حوالہ جات : ﺗﺄﻭﻳﻞ ﺍﻵﻳﺎﺕ - ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻨﻲ - ﺝ ٢ - ﺍﻟﺼﻔﺤﺔ ٥٦٧ / ﺍﻟﺼﺮﺍﻁ ﺍﻟﻤﺴﺘﻘﻴﻢ - ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﺍﻟﻌﺎﻣﻠﻲ - ﺝ ١ - ﺍﻟﺼﻔﺤﺔ ٢١١.

No comments:

Post a Comment