Thursday, 22 August 2013

 

 حروف مقطعات کیا ہیں ؟

 
حروف مقطعات کیا ہیں ؟سوال
  • قرآن مجید کے کئی سوروں کی ابتداء میں " الم" کے مانند حروف { مقطعات} ہیں کہ مفسرین ان کے معنی تک کو نہیں جانتے ہیں- جو کتاب تمام زمانوں کے لئےانسان کی راہنما ہے، اس میں کیوں مرموز الفاظ ہیں؟ یہ الفاظ آج کے انسان کی زندگی کی کن مشکلات کو حل کرسکتے ہیں- خداوند متعال کو بیہودہ کلام نہیں کرنا چاہئے-
  • قرآن مجید کے حروف مقطعات کے بارے میں کافی بحثیں کی گئی ہیں، من جملہ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:
  • حروف مقطعات والے سوروں میں موجود شباہتوں کے پیش نظر ممکن ہے انسان احتمال دے کہ ان حروف اور ان سے شروع ھونے والے سوروں کے درمیان کوئی رابطہ ھو-
  • پس یہ حروف خداوند متعال اور اس کے پیغمبر{ص} کے درمیان ایسے رموز ہیں جن کے معنی ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارا عادی فہم و اداراک ان کو سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے- مگر یہ کہ ہم احتمال دیں کہ ان حروف اور ان کے { سوروں کے درمیان کوئی} خاص رابطہ ہے-
  • عصر جدید کے ایک  محقق نے ، قرآن مجید کے بعض سوروں کی ابتداء میں موجود حروف مقطعات کے بارے میں الیکٹرانک سسٹم سے ایک تحقیق کر کے کچھ اہم نکات ثابت کئے ہیں- وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کی ابتداء میں پائے جانے والے حروف مقطعات جو مفرد یا مرکب صورت میں ہیں، کی تعداد ان سوروں میں موجود دوسرے حروف سے زیادہ ہے-
  • اس بنا پر حسب ذیل چند اہم نکات حاصل ھوتے ہیں:
  • الف} یہ حروف، جنھیں قرآن مجید کی اصطلاح میں حروف مقطعات کہتے ہیں بیہودہ نہیں ہیں-
  • ب} یہ حروف خداوند متعال اور اس کے رسول{ص} کے درمیان ایک راز ہے کہ دوسروں کا اس راز کے بارے میں آگاہ نہ ھونا، ان کے بیہودہ ھونے کی دلیل نہیں ہے-
  • ج} اگر عام لوگوں کی ہدایت کے لئے لکھی گئی ایک کتاب میں کچھ کلیدی نکات خاص افراد کے لئے بھی موجود ھوں تو یہ اس کتاب کے ہدایت کرنے والی ھونے کے منافی نہیں ہے-
اگر چہ یہ رموز شاید براہ راست آج کے انسانوں کی کسی مشکل کو حل نہیں کرسکتے ہیں لیکن ممکن ہے پیغمبر{ص} ان رموز سے بہرہ مند ھوکر امت کی بہتر صورت میں راہنمائی کرسکیں اور اس طرح لوگوں کی کچھ مشکلات کوحل کرسکیں -
  • ان سب مطالب کے باوجود حروف مقطعات جیسے مسائل کی بحث، دین کی داخلی بحث ہے، یعنی ہمیں اس موضوع پر اس وقت بحث کرنی چاہئے کہ جب ہم خدا اور نبوت وغیرہ کی بحث سے فارغ ھوچکے ھوں، اس لحاظ سے جب ہم نے خداوند متعال کو نیک اوصاف اور حکمت کے ساتھ پہچان لیا اور معلوم ھوا کہ خداوند متعال کوئی عبث و بیہودہ کام انجام نہیں دیتا ہے، تو اگر حروف مقطعات کے استعمال کا جیسا کوئی مسئلہ پیدا ھو جائے کہ بالفرض ہم اس کی دلیل و راز کو معلوم نہ کرسکے تو بھی ہم اس کے اجمالی جواب { خدا کے حکیم ھونے} کے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ کام بیہودہ نہیں ہے-
  • تفصیلی جوابات
  • اس سوال کا ایک مناسب جواب دینے سے پہلے ہم قرآن مجید کے حروف مقطعات کے بارے میں پیش کئے گئے دو نظریات بیان کرتے ہیں:
  • قرآن مجید کے حروف مقطعات کے بارے میں کافی بحث کی گئی ہے،[1] جن مفسرین نے اس موضوع پر گفتگو کی ہے، ہم ان میں سے پہلے علامہ طبا طبائی کا نظریہ پیش کریں گے پھر دوسرے مفسرین کے نظریات بیان کریں گے اور اس کے بعد نتیجہ نکالیں گے-
  • علامہ طبا طبائی {رح} فرماتے ہیں: قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کی ابتداء میں حروف مقطعات آئے ہیں کہ ان میں سے بعض سورے ایک حروف سے شروع ھوتے ہیں، جیسے: سورہ "ص"، "ق" اور "ن" – بعض سورے دو حروف سے شروع ھوئے ہیں جیسے: "طہ"، "طس"، " یس" اور "حم" اور بعض سورے تین حروف سے شروع ھوتے ہیں، جیسے: " الم"، " الر" اور " طسم" اور بعض سورے چار حروف سے شروع ھوئے ہیں، جیسے: "المص" اور " المر" اور بعض سورے پانچ حروف سے شروع ھوئے ہیں، جیسے: سورہ" کھیعص" اور " حمعسق"-
  • اس کے علاوہ یہ حروف { استعمال ھونے کی تعداد کے لحاظ سے} آپس میں فرق رکھتے ہیں – ان میں سے بعض صرف ایک جگہ پر استعمال ھوئے ہیں ، جیسے: " ن" اور ان میں سے بعض حروف کئی سوروں کی ابتداء میں آئے ہیں، جیسے: " الم"، "الر"، " طس" اور " حم"-
  • اگر ہم ان دو نکات کو مد نظر رکھتے ھوئے، " الم اور " المر" جیسے حروف مقطعات سے شروع ھونے والے سوروں پر ذرا غور کریں، تو معلوم ھوگا کہ یہ سورے مضمون کے لحاظ سے بھی آپس میں شباہت رکھتے ہیں اور ان کا سیاق بھی یکساں ہے، اس طرح کہ ان کے درمیان پائی جانی والی شباہت دوسرے سوروں میں نہیں پائی جاتی ہے-
  • ایسے سوروں کی ابتدائی آیات میں جو شباہت پائی جاتی ہے، ان میں اس معنی کی تاکید کی گئی ہے کہ، مثال کے طور پر " حم" سے شروع ھونے والے سوروں کی پہلی آیت " تلک آیات الکتاب"  کی عبارت سے شروع ھوتی ہے ، یا ایک دوسری عبارت سے جس کے یہی معنی ہیں، اس قسم کی آیات ان سوروں کی ابتداء میں ہیں جو " الر" سے شروع ھوتے ہیں، جن میں فرما یا گیا ہے " تلک آیات الکتاب" یا اس معنی کی کوئی عبارت ھوتی ہے اس کی مثال ان سوروں میں ملتی ہے جو " طس" سے شروع ھوتے ہیں یا وہ سورے جو " الم" سے شروع ھوتے ہیں، ان میں سے اکثر سوروں میں اس کتاب میں شک و شبہہ نہ ھونے کا ذکر کیا گیا ہے اور ایک ایسی عبارت ہے جس کے یہی معنی ہیں-
  • ان شباہتوں کو مد نظر رکھتے ھوئےممکن ہے انسان خیال کرے کہ ان حروف اور ان حروف سے شروع ھونے والے سوروں کے مضامین میں کوئی خاص رابطہ ھوگا- اس خیال کی تائید اس سے ھوتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ اعراف، جو " المص" سے شروع ھوا ہے، میں ایسے مطالب ہیں جو سورہ " الم" اور سورہ "ص" میں پائے جاتے ہیں – اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ " رعد" جو حروف " المر"  سے شروع ھوا ہے ، میں سورہ " الم" اور سورہ" المر" دونوں کے مطالب  پائے جاتے ہیں-
  • یہاں سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ حروف خداوند متعال اور اس کے پیغمبر {ص} کے درمیان کچھ رموز ہیں، کہ ان کے معنی ہم سے پنہان ہیں اور ہمارا عام فہم و ادراک انھیں سمجھنے سے قاصر ہے، مگر اسی حد تک کہ احتمال دیں کہ ان حروف  اور ان حروف سے شروع ھونے والے مضامین کے درمیان کوئی خاص رابطہ ہے-[2]
  • ان مطالب کو بیان کرنے کے سلسلہ میں عصر جدید کے ایک مفسر نے  ایک دلچسپ نکتہ بیان کیا ہے، جس کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں: کئی سال قبل امریکہ میں مقیم ایک مصری محقق " ڈاکٹر رشاد" کو قرآن مجید کے بعض سوروں کی ابتداء میں موجود حروف مقطعات کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ھوئیں، جنھیں انھوں نے الیکٹرانیک سسٹم سے ثابت کیا ہے – وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء میں پائے جانے والے ان حروف مقطعات کا اس سورہ کی آیات کے اندر پائے جانے والے دوسرے حروف کے ساتھ ایک رابطہ ہے، اس کے بعد اس نے اپنے اس انکشاف اور نظریہ کو کئی برسوں کی کوششوں کے نتیجہ میں الیکٹرانیک سسٹم کے ذریعہ ثابت کیا اور اس نتیجہ کا اعلان کیا کہ ان مفرد یا مرکب حروف مقطعات کی مقدار، ان سوروں میں موجود دوسرے حروف سے زیادہ ہے، اس انکشاف کی بنا پر، معلوم ھوتا ہے کہ قرآن مجید کی مخصوص لغت، جملوں اور آیات کی غیر معمولی ترکیب کے معجزہ کے علاوہ اس کے حروف بھی ایک تنظیم اور حساب و کتاب کے تحت ترتیب دئے گئے ہیں کہ وہ بذات خود ان کے معنی ، حقائق و محتوی کے علاوہ ایک معجزہ ہیں-
  • یہ انکشاف قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی ابتداء میں موجود حروف مقطعات کے بارے میں بعض پیش کئے گئے نظریات کو ثابت کرتا ہے کہ ان میں سے ایک ان مفرد یا مرکب حروف اور اس سورہ کے کلمات کے درمیان پائے جانے والے تناسب کے معجزہ کی طرف اشارہ ہے- شائد یہ نظریات اور انکشافات مزید حقائق کشف ھونے  کا ایک پیش خیمہ ہوں گے-[3]
  • مذکورہ مطالب کے پیش نظر مندرجہ ذیل چند اہم نکات معلوم ھوتے ہیں:
الف} یہ حروف، جن کو قرآن مجید کی اصطلاح میں حروف مقطعات کہتے ہیں بیہودہ  نہیں ہیں ، کیونکہ ان کے بہت سے فوائد بیان کئے گئے ہیں  اور اگر آپ اپنے ہی قول پر غور کریں گے، اور آپ نے ان حروف کو " مرموز" حروف سے تعبیر کیا ہے، اور ہم یہ گمان نہیں کرتے کہ اگر کوئی آپ سے لفظ " مرموز" کے معنی پوچھ لے، تو آپ جواب میں " بیہودہ" کہیں گے-
  • ب} جو کچھ ہم نے اس سلسلہ میں مفسرین کے نظریات کے طور پر پیش کیا، اس سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ حروف مقطعات، خداوند متعال اور اس کے پیغمبر{ص} کے درمیان ایک رمز{ code } ہے البتہ ممکن ہے انسان اس کے بعض رموز کا انکشاف کرسکے اور ہر رمز میں کچھ اسرار پوشیدہ ھوتے ہیں جن سے دوسرے بے خبر ھوتے ہیں اور دوسروں کا ان اسرار کے بارے میں باخبر نہ ھونا ان کے بیہودہ ھونے کی دلیل نہیں ہے –
  • ج} اگرعام لوگوں کے لئے لکھی گئی ہدایت پر مبنی کسی کتاب میں چند کلیدی نکتے خواص کے لئے بھی درج کئے گئے ھوں، تو اس کتاب کے ہدایت گر ھونے کے منافی نہیں ہے-
اگر چہ یہ رموز شاید براہ راست آج کے انسانوں کی کسی مشکل کو حل نہیں کرسکتے ہیں لیکن ممکن ہے پیغمبر{ص} ان رموز سے بہرہ مند ھوکر امت کی بہتر صورت میں راہنمائی کرسکیں اور اس طرح لوگوں کی کچھ مشکلات کوحل کرسکیں -
  • ان سب مطالب کے باوجود حروف مقطعات جیسے مسائل کی بحث، دین کی داخلی بحث ہے، یعنی ہمیں اس موضوع پر اس وقت بحث کرنی چاہئے جب ہم خدا اور نبوت وغیرہ کی بحث سے فارغ ھوچکے ھوں، اس لحاظ سے جب ہم نے خداوند متعال کو نیک اوصاف اور حکمت کے ساتھ پہچان لیا اور معلوم ھوا کہ خداوند متعال کوئی عبث و بیہودہ کام انجام نہیں دیتا ہے، [4]تو اگر حروف مقطعات کے استعمال کا جیسا کوئی مسئلہ پیدا ھو جائے کہ{ بالفرض ہم اس کی دلیل و راز کو معلوم نہ کرسکے تو بھی ہم اس کے اجمالی جواب { خدا کے حکیم ھونے} کے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ کام بیہودہ نہیں ہے-


  • [1] اس سلسلہ میں ہماری اسی سائٹ کے عنوان سے:" معنای حروف مقطعات قرآن" سوال: ۲۴۷۳ ملاحظہ ھو-
  • [2] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج ‏18، ص 7، 8، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم، طبع پنجم‏، 1374 ھ ش‏.
  • [3] طالقانى، سيد محمود، پرتوى از قرآن، ج ‏5، ص 8، پاورقی، ج ‏4، ص 157، ناشر: شركت سهامى انتشار، تهران‏، 1362ھ ش‏.
  • [4] مؤمنون، 115.
  • خداوند متعال نے کیوں فرمایا ہے:" ان مع العسر یسرا" اور یہ نہیں فرمایا ہے کہ: " ان بعد العسر یسرا"؟


  • خداوند متعال نے کیوں فرمایا ہے:" ان مع العسر یسرا" اور یہ نہیں فرمایا ہے کہ: " ان بعد العسر یسرا"؟

مذکورہ آیہ شریفہ میں سختیوں کو برداشت کرنے اور آسانی تک پہنچنے کے درمیان ایک قسم کی ہم آہنگی اور ارتباط پایا جاتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ انسان سختیوں کے بعد اتفاقی طور پر آسانی تک پہنچتا ہے، اس لحاظ سے عسر و یسر { زحمت اور آسانی} کے درمیان اس پیوند کے لئے ایک لفظ کی ضرورت ہے کہ جس کے یہ معنی ھوں اور وہ لفظ " مع" ہے-
  • " مع" کو استعمال کرنے کے سلسلہ میں، مفسرین نے متعدد تفسیریں کی ہیں، من جملہ یہ کہ:
  • الف- آیہ شریفہ لفظ " مع" سے یہ سمجھاتی ہے کہ آسانی، رنج و زحمت کے ساتھ منسلک ہے، سختی برداشت کرنے کے لمحہ کے بعد رفتہ رفتہ آسانی حاصل ھوتی ہے-
  • ب-لفظ "مع" سے استفادہ کیا گیا ہے تاکہ معلوم ھوجائے کہ آسانی، سختی کے قریب ھوتی ہے اور اس طرح دل کو سکون اور تسلی حاصل ھو جائے-
  • بہرحال، اس کے پیش نظر کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی آمیختہ ہے اور ہر سختی کے ساتھ سہولت بھی ہے، اور یہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ  تھے اور ہوں گی، اگر یہاں پر لفظ " بعد" استعمال کریں تو یہ وہ لطیف معنی نہیں دیتا ہے-
  1. تفصیلی جوابات
  • خداوند متعال نے اس آیہ شریفہ میں اپنے پیغمبر{ص] سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا ہے: " پس { جان لو کہ} ہر تکلیف کے ساتھ سہولیت بھی ہے-"[1]
  • پیغمبر اکرم {ص} مکہ مکرمہ میں بہت سی تکالیف اور مشکلات سے دوچار تھے، ظاہر ہے کہ یہ خداوند متعال کی طرف سے ایک وعدہ ہے کہ آپ {ص} کے لئے مدینہ منورہ میں آسانی ہے یا یہ کہ دنیا میں پیش آنے والی سختیوں کے بعد بہشت میں آپ {ص} کے لئے سہولیت ہے-
لیکن آیات کے مفہوم کی وسعت میں تمام مشکلات شامل ھوتی ہیں، یعنی یہ دو آیتیں ایسے پیش کی گئی ہیں کہ صرف پیغمبر {ص} کی ذات اور آنحضرت {ص} کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہیں- بلکہ ایک کلی قاعدہ کی صورت میں پیش کی گئی ہیں، اور تمام مومن، مخلص اور کوشش کرنے والے انسانوں کے لئے بشارت ہے کہ ہمیشہ سختیوں کے ساتھ سہولتیں ہیں-[2]
لفظ " مع" کے استعمال کے سلسلہ میں کئی تفسیریں کی گئی ہیں کہ ان میں سے اکثر قابل جمع ہیں اور ہم ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
  • الف- لفظ " بعد" کی جگہ پر لفظ " مع" کا استعمال اس لئے ہے کہ اس سے عسر { سختی} اور یسر { آسانی} کے درمیان پیوستگی معلوم ھوتی ہے،[3] یعنی آیہ شریفہ میں سختیوں اور سہولتوں کے درمیان ایک قسم کی پیوستگی اور رابطہ پایا جاتا ہے، یعنی اس طرح نہیں ہے کہ انسان سختیوں کے بعد اتفاقی طور پر آسانی تک پہنچتا ہے ، اس لحاظ سے، سختی اور آسانی کے درمیان اس پیوند کے لئے ایک لفظ کی ضرورت ہے، جس میں یہ معنی پائے جاتے ھوں اور وہ لفظ " مع" ہے-
  • بہ الفاظ دیگر، آیہ شریفہ لفظ " مع" کے ذریعہ سمجھاتی ہے کہ آسانی اور رنج و تکلیف میں چولی دامن کا ساتھ ہے، سختیاں برداشت کرنے کے لمحہ سے، رفتہ رفتہ آسانی ہاتھ آتی ہے-[4] بہرحال لفظ "مع" ہمراہی کی علامت ہے،[5] اور معلوم ھوتا ہے کہ یہ دو عسر و یسر نا قابل جدائی ہیں-
  • ب- اس لئے لفظ" مع" سے استفادہ کیا گیا ہے- تاکہ معلوم ھو جائے آسانی، سختی کے قریب ہے اور اس طرح دل کو اطمینان اور تسلی حاصل ھو جائے-[6]
قابل ذکر ہے کہ علامہ طبا طبائی اس کے قائل ہیں کہ لفظ " مع = سے" مراد عسر {سختی} کے ضمن میں یسر {آسانی} ہوتی ہے، نہ یہ کہ اس " مع" سے یہ مراد ھو کہ عسر اور یسر ایک ہی زمانہ میں واقع ھوتے ہیں-[7]
  • بہرحال " مع" کے معنی جو بھی ھوں، چونکہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی آمیختہ ہے اور ہر تکلیف کے ساتھ ایک سہولت ہے، اور یہ دو چیزیں ہمیشہ ایک ساتھ تھیں اور ھوں گی[8]
  • اس لئے یہاں پر لفظ " مع" سے استفادہ کرنا بے معنی نہیں ہے-


  • [1] انشراح، 5 و 6.
[2] مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج ‏27، ص 127، دار الكتب الإسلامية، طبع تهران، طبع اول، 1374 ھ ش‏.
  • [3] طالقانى، سيد محمود، پرتوى از قرآن، ج ‏4، ص 157، شركت سهامى انتشار، تهران‏، 1362 ھ ش‏.
  • [4] قرشى، سيد على اكبر، تفسير أحسن الحديث، ج ‏12، ص 274، بنياد بعثت‏، تهران‏، 1377 ھ ش.‏
  • [5] تفسير نمونه، ج ‏27، ص 127و ۱۲8.
  • [6] طبرسى، فضل بن حسن‏، تفسير جو امع الجامع، ج‏ 4، ص 507، انتشارات دانشگاه تهران و مديريت حوزه علميه قم، تهران‏، طبع اول‏، 1377 ش؛ ابن جزى غرناطى، محمد بن احمد، كتاب التسهيل لعلوم التنزيل، ج ‏2، ص 493، شركت دار الارقم بن ابى الارقم، طبع اول، 1416-
  • [7] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج‏20، ص 534، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع پنجم‏، 1374 ھ ش‏.
  • [8]  نمونه، ج ‏27، ص 127و 128.

حضرت نوح{ع} نے کس پرندہ کو خشکی پیدا کرنے کے لئے بھیجا؟


حضرت نوح{ع} نے کس پرندہ کو خشکی پیدا کرنے کے لئے بھیجا؟

آیہ شریفہ: «وَ قیلَ یا أَرْضُ ابْلَعی‏ ماءَکِ وَ یا سَماءُ أَقْلِعی‏ وَ غیضَ الْماءُ وَ قُضِیَ الْأَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِیِّ وَ قیلَ بُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّالِمین‏»،[1] کی تفسیر میں ، مفسرین نے حضرت نوح {ع} کی کشتی کے رکنے کے بعد واقع ھونے والے حوادث کے بارے میں اشارہ کیا ہے ، کہ ان حوادث میں سے خشکی کی تلاش میں کوے اور کبوتر کو بھیجنا ہے-
خداوند متعال نے حضرت نوح{ع} اور تمام حیوانوں اور کشتی پر موجود افراد کو یاد کیا اور ایک ہوا کو بھیجا- اور پانی رک گیا زمین کے چشمے اور آسمانی دروازے بند کئے گئے، آسمان سے اب بارش رک گئی اور زمین سے ابلنے والے پانی بھی رفتہ رفتہ زمین میں جذب ھوئے، اور ۱۵۰ دنوں کے بعد پانی میں کمی واقع ھوئی ساتویں مہینہ کی سترہویں تاریخ کو حضرت نوح {ع} کی کشتی جودی نامی پہاڑ پر رک گئی، اور دسویں مہینہ تک پانی کم ھوتا رہا یہاں تک کہ اس مہینہ کی پہلی دہائی کے دوران، پہاڑوں کی چوٹیاں پانی سے نمودار ھونے لگیں –
چالیس دنوں کے بعد ایسا ھوا کہ حضرت نوح {ع} نے وہ کھڑکی کھول دی جو انھوں نے کشتی میں بنائی تھی اور ایک کوے کو کشتی سے باہر بھیجدیا- کوا ہر طرف پرواز کرتا تھا لیکن حضرت نوح {ع} کے پاس واپس نہ لوٹا، یہاں تک کہ زمین خشک ھوئی اور پانی نیچے اترا، کوے کے بعد حضرت نوح {ع} نے کبوتر کو چھوڑا تاکہ دیکھ لے کہ پانی زمین پر کم ھوا ہے یا نہیں، چونکہ کبوتر کو کوئی خشک جگہ نہیں ملی تاکہ وہاں پر رکتا اس لئے مجبور ھوکر حضرت نوح {ع} کے پاس لوٹا، چونکہ پانی ابھی پوری زمین پر پھیلا ھوا تھا، حضرت نوح {ع} نے اپنے ہاتھ کو پھیلایا اورکبوتر کو پکڑ کر کشتی میں اپنے پاس لا یا - مزید سات دن کشتی میں رکے اور اس کے بعد پھر سے کبوتر کو چھوڑا، کبوتر عصر کے وقت حضرت نوح {ع} کے پاس لوٹا، جبکہ اس کی چونچ میں زیتون کا ایک سبز پتا تھا ، حضرت نوح { ع} سمجھ گئے کہ زمین پر پانی ختم ھوا ہے، پھر سات دن ٹھرے، پھر کبوتر کو چھوڑا اس بار کبوتر حضرت نوح کے پاس نہ لوٹا-[2]
اس بنا پر،معلوم ہوپا ہے کہ حضرت نوح {ع} نے خشکی کی تلاش میں کوے اور کبوتر کو بھیجا تھا-


[1]. هود، 44. " اور قدرت کا حکم ھوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان اپنے پانی کو روک لے- اور پھر پانی گھٹ گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھر گئی اور آواز آئی کہ ہلا کت قوم ظالمین کے لئے ہے "-.
[2] طباطبایى، سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، ج 10، ص 255، دفتر انتشارات اسلامى، قم، 1417 ھ ملاحظہ ھو: ابن کثیر دمشقى، اسماعیل بن عمرو، تفسیر القرآن العظیم، ج 4، ص 284، دار الکتب العلمیة، منشورات محمدعلى بیضون، بیروت، 1419 ھ ؛ طبرى، ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان فى تفسیر القرآن، ج 12، ص 30، دار المعرفه، بیروت، 1412 ھ


قرآن مجید کے مطابق انسان کی کن طریقوں سے آزمائش کی جاتی ہے؟


قرآن مجید کے مطابق انسان کی کن طریقوں سے آزمائش کی جاتی ہے؟

   خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:" میں نے انسانوں کو پیدا کیا ہے تاکہ ان کی آزمائش کروں کہ، ان میں سے کون بہتر عمل انجام دیتا ہے- خدا کی آزمائش و امتحان کا مفہوم، ہماری آزمائشوں سے مختلف ہے- ہماری آزمائشیں زیادہ تر پہچان حاصل کرنے اور ابہامات اور جہالت کو دور کرنے کے لئے ھوتی ہیں- لیکن خدا کی آزمائش حقیقت میں وہی" پرورش و تربیت" ہے، یعنی خداوند متعال کی آزمائش و امتحان میں تربیت، پرورش  اور کمال حاصل کرنے کا زمینہ پایا جاتا ہے-
خداوند متعال انسانوں کی طاقت کے مطابق مختلف طریقوں سے ان کا امتحان لیتا ہے- کبھی مشکلات اور سختیوں کے ذریعہ، کبھی خیر و شر کے طریقے سے اور کبھی مال و سرمایہ اور اولاد کی فراوانی سے اور کبھی مصیبتوں وغیرہ سے امتحان لیتا ہے-
تفصیلی جوابات
الہی آزمائش کا مفہوم:
جس چیز کو اردو زبان میں " آزمائش" اور " آزمانا" کہا جاتا ہے، وہ چیز قرآن مجید میں مختلف الفاظ میں آئی ہے- مثال کے طور پر" ابتلاء" " بلاء" " فتنہ، اور تمحیص" خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ میں نے انسانوں کو پیدا کیا تاکہ ان کی آزمائش کروں کہ ان میں سے کون بہتر عمل انجام دیتا ہے- اور ارشاد فرماتا ہے:" اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں احسن عمل کے اعتبار سے  کون بہتر ہے اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے-"[1] خداوند متعال کی طرف سے آزمائش اور امتحان کا ہماری آزمائش اور امتحان سے کافی فرق ہے- ہماری آزمائش زیادہ تر پہچان حاصل کرنے اور ابہامات اور جہالت کو دور کرنے کے لئے ھوتی ہے-[2] لیکن خداوند متعال کی آزمائش و امتحان میں تربیت، پرورش اور کمال حاصل کرنے کا زمینہ پایا جاتا ہے- اور وہ پرورش اور کمال کو انسانوں کے لئے وجود میں لاتا ہے، چنانچہ حضرت ابراھیم (ع) جیسے انبیائے الہی سخت اور ناقابل برداشت آزمائشوں اور امتحانات کے بعد ہی عالی ترین مقامات پر فائز ھوئے ہیں-[3]
قرآن مجید میں الہی آزمائشوں کے نمونے:
خداوند متعال کی طرف سے انسانوں کی آزمائش سنت الہی ہے-
قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے:" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا- بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں"-[4]
کبھی خداوند ایک عمومی امتحان کا نام لیتا ہے جو خدا کے تمام بندوں سے متعلق ھوتا ہے، اور ارشاد فرماتا ہے:" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا-"[5]
کبھی قرآن مجید کچھ خاص امتحانات کے ایک سلسلہ سے پردہ اٹھاتا ہے جو بعض خاص افراد اور گروہوں کے بارے میں تھے، اور یہ موضوع پیغمبروں اور ان کی قوموں کی داستانوں کے مانند قرآن مجید کی کچھ داستانوں اور قصوں پر مشتمل ہے-
قرآن مجید میں عام امتحانات کے بارے میں آیات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان سب کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے- ہم ذیل میں قرآن مجید میں الہی امتحانات میں سے بعض کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1-مشکلات اور سختیاں:
خداوند متعال مشکلات اور سختیوں کے ذریعہ انسانوں کا امتحان لیتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے:" اور ہم یقینا تمھیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبران صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں-"[6]
مشکلات اور دشواریاں بھٹی کے مانند ہیں جولو ہے کو مضبوطی اور استقامت بخشتی ہے، اور انسان بھی مشکلات اور حوادث کی بھٹی میں قوی اور طاقتور بن جاتا ہے اور اس میں اپنی زندگی اور سعادت کی راہوں کی رکاوٹوں کو ہٹانے کی طاقت پیدا ھوتی ہے- بلا اور مصیبتوں میں تربیت کا اثر ھوتا ہے اور یہی مصیبتیں فرد کو تربیت کرتی ہیں اور معاشرہ کو بیدار کرتی ہیں- سختیاں خفتہ انسانوں کو بیدار کرنے والی اور ان کے عزم ا ور ارادوں کو متحرک کرنے والی ھوتی ہیں – مصائب ، آہن و فولاد کی جلا کے مانند زیادہ تر انسان کی روح سے رابطہ رکھتے ہیں، اور افراد کو مصمم تر فعال تر اور مضبوط تر بناتے ہیں، کیونکہ حیات کی خاصیت یہ ہے کہ سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں مقاومت کرے اور ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ھو جائے، سختی کیمیا کے مانند ماہیت کو تبدیل کرنے کی خاصیت رکھتی ہے اور انسان کی جان اور روح میں تبدیلی پیدا کرتی ہے-[7]
2- برائی اور اچھائی:
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے کہ:" اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے-"[8] پس اچھائیاں بھی امتحان کا سبب بن سکتی ہیں، مثال کے طور پر کسی کومال و دولت یا کوئی ایسی مسئولیت ملتی ہے، جو اس کی عزت و آبرو میں اضافہ ھونے کا سبب بنتی ہے اور وہ شخص اس حالت سے بخوبی استفادہ نہیں کرتا ہے اور شیطان اسے گمراہ کرتا ہے-
3-نعمت کی فراوانی:
خداوند متعال کے امتحانات ہمیشہ سخت حوادث و مشکلات کے ذریعہ ہی نہیں ھوتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی خداوند متعال اپنے بندوں کا نعمتوں کی فراوانی اور کامیا بیوں سے بھی امتحان لیتا ہے-[9]  چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید بقول حضرت سلیمان (ع) ارشاد فرماتا ہے: " یہ میرے پرور دگار کا فضل و کرم ہے وہ میرا امتحان لینا چاہتا ہے کہ میں شکریہ ادا کرتا ھوں یا کفران نعمت کرتا ھوں اور جو شکریہ ادا کرے گا وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کرے گا اور جو کفران نعمت کرے گا اس کی طرف سے میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے-"[10]
جو لوگ نعمتوں میں غرق ھوتے ہیں اور ہر اعتبار سے انھیں مادی وسائل اور امکانات مہیا ھوتے ہیں، ان کا امتحان یہ ہے کہ ان حالات میں وہ نعمتوں کا شکریہ بجا لانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں یا نہیں اور محتاجوں اور فقیروں کی مدد کرتے ہیں یا غفلت، غرور اور خود خواہی میں غرق ھوتے ہیں ؟
4- اولاد:
قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" اور جان لو کہ یہ تمھاری اولاد اور تمھارے اموال ایک آزمائش ہیں"-[11]
5- ایمان و کفر:
قرآن مجید جہنم کے نگہبانوں اور ان کی تعداد کے بارے میں یاد دہانی کراتا ہے کہ انیس(19) فرشتے جہنم کی حفاظت اور نگہبانی کرتے ہیں، اور اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ یہ رپورٹ ان لوگوں کے لئے امتحان و آزمائش کا وسیلہ ہے، جو غیب اور پوشیدہ امور کے بارے میں قوی ایمان رکھتے ہیں، وہ اس رپورٹ کو صمیم قلب سے قبول کرتے ہیں- لیکن دوسرے گروہ کے لوگ اس کی تردید کرتے ہیں، چنانچہ ارشاد ھوتا ہے:" اور ہم نے جہنم کا نگہبان صرف فرشتوں کو  قرار دیا ہے اور ان کی تعداد (19) کو کفار کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے-"[12]
6- زمین کی زینت:
قرآن مجید ایک جگہ پر، جو کچھ زمین پر قرار پایا ہے، اسے امتحان کا سبب جانتا ہے، اور اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:" بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے-"[13]


[1] - ملک، 2.
[2] - مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 1، ص 527، دارالکتب الاسلامیة، طبع بیست و یکم، 1365 شمسی.
[3] - بقره، 124. "وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمينَ".
[4] - عنکبوت، 3و2.
[5] - عنکبوت، 2.
[6] - بقره، 155.
[7] - سوال نمبر 2056 (سائٹ: 2418) کے عنوان کا اقتباس-
[8] - انبیاء، 35.
[9] - تفسير نمونه، ج 1، ص 533.
[10] - نمل، 40.
[11] - انفال، 28.
[12] - مدثر،31.
[13] - كهف،7






 رجعت کیا هے ؟ کسے هوگی ؟ اور کب هوگی؟


رجعت شیعوں کے عقائد میں سے ایک عقیده هے جس کے معنی ، مرنے کے بعد اور قیامت سے پهلے دنیا میں واپس پلٹنا هے ، جو امام زمانه (عج) کے ظهور کے ﻜﭽﻬ دیر کے بعد سے آپ علیه السلام کی شهادت وقیامت سے ﮐﭽﻬ پهلے تک واقع هوگی ؛ رجعت عام نهیں هے خالص مؤمنین یا مشرک کامل کے لئے مخصوص هے ۔
تفصیلی جوابات
رجعت کے معنی لغت میں پلٹنا یا واپس هونا هے [1] اور اصطلاح میں اس کے معنی(خالص مؤمنین اورمکمل مشرکین )میں سے ﮐﭽﻬ افراد مرنے کے بعد اور قیامت سے پهلے دنیامیں واپس آئیں گے ۔
رجعت پر عقیده ، مذهب اهلبیت علیهم السلام کے عقائد میںسے هے جس کی سند میں بهت سے آیتیں اور روایتیں هیں ۔
رجعت آیات و روایات میں :
الف) آیات:
قرآن مجید کی آیات میں غور کرنے سے یه نتیجه نکلتا هے که قرآن مجید نے دو طرح سے رجعت کے مسئله کی طرف اشاره کیا هے :
1) وه آیات جو آئنده رجعت کے واقع هونے کی طرف اشاره کرتی هیں ؛ جیسے سوره نمل کی آیت نمبر83 جس میں ارشاد خداوندی هوتا هے(( اور اس دن هم هر امت کے لوگوں میں سےجو هماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے ایک گروه محشور کریں گے یهاں تک که وه ایک دوسرے سے ملحق هوجائیں )) بهت سے بزرگ حضرات اس آیت کو رجعت کے مسئله اور قیامت کے نزدیک اچھے اور برے لوگوں کے ایک گروه کے اس دنیامیں واپس آنے کی طرف اشاره هے تو " من کلِّ امۃٍ فوجاً"(هر امت سے ایک گروه) سے تعبیر کرنا صحیح نهیں هے اس لیئے که قیامت میں سبھی محشور هوں گے جیسا که قرآن مجید سوره کهف آیت نمبر 47 میں ارشاد فرماتا هے : (( هم انهیں محشور کریں گے اور کسی ایک کو بھی نهیں چھوڑیں گے ))
2) وه آیت جو گذشته امتوں میں حوادث کی رونما هونے کی طرف اشاره کرتی هیں جو حقیقت میں ایک قسم کی رجعت شمار هوتی هے جیسے یه آیات :
۱) سوره بقره آیت نمبر 259 ایک نبی کے سلسله میں هے جو ایک ایسی آبادی سے گزرے جس کی دیواریں گری هوئی تھیں اور وهاں کے لوگوں کے جسم اور هڈیاں بکھری پڑی تھیں ،انهوں نے اپنے آپ سے سوال کیا :
خداوند عالم کس طرح انھیں مرنے کے بعد زنده کرے گا؟ تو خداوند عالم نے ان(نبی) کو ایک سو سال کی موت دے دی اور اس کے بعد زنده کیا اور ان سے پوچھا کتنی دیر پڑے رهے ؟ تو انھوں نے کهاں ایک دن یا ﻜﭽﻬ کم ۔ فرمایا نهیں ۔ سو سال[2]۔ یه نبی عُزیر هوں یا کوئی اور نبی فرق نهیں پڑتا ، اهم مرنے کے بعد اسی دنیا میں دوباره زنده هونے کے سلسلسه میں قرآن کا وضاحت کرنا هے[3]  ۔
۲) سوره بقره آیت نمبر 248 میں ایک اور گروه کے سلسله میں گفتگو هوتی هے جو موت کے ڈر سے (اور مفسرین کے مطابق طاعون کی بیماری کے بهانه میدان جهادمیں نه جانے کے لیئے) اپنے گھروں سے باهر چلے گئے ، خداوند عالم نے ان کو موت دے دی اور پھر انھیں زنده بھی کیا [4]۔
۳) سوره بقره آیت 55-56 میں بنی اسرائیل سے متعلق هم پڑھتے هیں که ان میں سے ایک گروه خداوند عالم کے مشاهده کا تقاضا کرنے کے بعد موت کے کھاٹ اتارنے والی بجلی میں گرفتار هوکر مرگیا پھر اس کے بعد خداوند عالم نے انھیں زندگی کی طرف پلٹادیا تا که اس کی نعمتوں کا شکر اداکریں [5] ۔
۴) سوره مائده آیت نمبر 110 میں جناب عیسیٰ کے معجزات شمار کرنے کے ضمن میں ارشاد هوتا هے ((تم مردوں کو میرے اذن سے زنده کرتے تھے))[6] اس سے معلوم هوتا هے که جناب عیسیٰ نے اپنے اس معجزه (مردوں کو زنده کرنا) سے استفاده کیا هے ، بلکه فعل مضارع (تخرج) کی عبارت اس کے مکرر هونے کی دلیل هے اور یه بھی ﮐﭽﮭ لوگوں کے لیئے رجعت کی ایک قسم شمار هوتی هے ۔
۵) سوره بقره آیت نمبر 73 اس مرده کے متعلق هے جس کے قاتل کوڈھنڈنے کی خاطر بنی اسرائیل میں قتل و غارت مچی هوئی تھی ؛ قرآن مجید اس طرح فرماتا هے : ((حکم دیا گیا که ایک گائے کو ﮐﭽﻬ خصوصیات کے ساﭡﻬ ذبح کرکے اس کے ایک ٹکرے کو اس مرده پر ماریں تا که وه دوباره زنده هوجائے (اور مقتول اپنے قاتل کی خود هی خبر دے اور جھگڑا ختم هو)[7]
قرآن مجید میں ان پانچ موقع کے علاوه دیگر موارد بھی هیں جیسے اصحاب کهف کا قصه جو رجعت کے مشابه تھایا جناب ابراهیم کے چار پرندوں کا قصه جو ذبح کرنے کے بعد دوباره زنده هوئے تا که معاد (قیامت) کے امکان کو انسانوں کے لیئے مجسم کیا جا سکے جو رجعت کے سلسله میں بھی غور طلب هے[8] ۔
ب) روایات:
امام صادق(علیه السلام) رجعت سے متعلق فرماتے هیں ((خدا کی قسم شب و روز ختم نهیں هوں گے مگر یه که خداوند عالم مردوں کو زنده کرے اور زندوں کو موت دے اور حق کو مستحق تک پهنچائے اور اپنے منتخب کرده دین کو قائم کرکے دنیا پر حاکم کرے۔
اسی طرح مأمون امام علی رضا(علیه السلام) سے عرض کیا : اے ابوالحسن(علیه السلام) رجعت سے متعلق آپ کا کیا نظریه هے ؟ آپ(علیه السلام) نے فرمایا : ((رجعت حقیقت رکھتی هے ، گذشته امت میں بھی تھی ، قرآن میں بھی اس کے متعلق بیان هے اور رسول خدا(صل الله علیه وآله وسلم) نے بھی ارشاد فرمایا هے: (( جو ﮐﭽﻬ گذشته امت میں تھا و عیناً اور مو به مو اس امت میں بھی پیش آئے گا))[9]
البته اس سلسله میں روایتیں بهت زیاده هیں لیکن اختصار کے مدنظر انھیں دو روایت پر اکتفا کرتے هیں ۔
رجعت عقل اور فلسفه کی نگاه میں :
یهاں پر رجعت کے فلسفه اور حکمت سے متعلق اشاره کرنا ضروری هے:
1. کمال تک رسائی:
دنیا استعداد کی تکمیل اور قوتوں کو فعلیت دینے کی جگه هے اور آخرت تک پهنچنے کے لیئے پیدا کی گئی هے تا که موجودات عالم اپنے اندر پروان چڑھا کر مقصد تک پهنچائے؛مگر چوں که ﮐﭽﻬ خالص مؤمن غیر طبیعی موت اور دیگر مشکلات کی وجه سے اس معنوی راه کو طے نهیں کر سکے هیں لهذا حکمت خداوند عالم کا تقاضا یه هے که وه اس دنیا میں واپس آئیں اور اپنے کمال کے راسته کو پورا کریں ؛ جیسا که امام جعفرصادق(علیه السلام) فرماتے هیں : ((جو بھی مؤمن قتل هوگا وه دنیا میں واپس آئے گا تا که نئے سرے سے زندگی بسر کر کے طبیعی طور سے مرے اور جو بھی مؤمن مرگیا هوگا وه دنیا میں واپس آئے گا تا که قتل هو (اور شهادت کے درجه پر فائز هو)[10] ۔
2. دنیوی سزا:
دنیا میں ایسے بھی لوگ تھے جو مختلف عنوان سے اپنے پورے حقوق سے محروم رهے اور اپنا حق لئے بغیر مظلوم قتل کئے گئے ۔
رجعت کا فلسفه یه هے که خداوند عالم (ظالم و مظلوم) دونوں کو دنیامیں واپس بھیجے گا تا که مظلوم اپنے هی هاتھوں سے ظالم سے بدله لے ؛ امام جعفر صادق(علیه السلام) سے منقول هے ((جو لوگ مرچکے هیں وه دنیا میں واپس پلٹیں گے تا که اپنا انتقام لیں جسے جتنی اذیت پهنچی هوگی اسی مقدار میں وه بدله لےگا ، جس نے جیسی دشمنی کا مشاهده کیا هوگا وه اسی مقدار میں انتقام لے گا جو قتل هوا هوگا وه اپنے خون کے بدله میں قاتل کو خود هی قتل کرےگا اور اس مقصد کے پورا هونے کے لیئے اس کے دشمن بھی دنیا میں واپس آئیں گے تا که وه خود خون بهانے کا بدلا دیں اور انھیں قتل کرنے کے بعد 30مهینے زنده رهیں گے پھر سارے کے سارے ایک هی شب میں مرجائیں گے جب که ان کے دلوں کو شفا ملی هوگی اپنے خون کا بدله لے کر ؛اور ان کے دشمن جهنم کے سخت عذاب میں هوں گے))[11]
لهذا ان دونوں گروهوں کے اس دنیا میں دوباره واپس هونے کا مقصد ، پهلے گروه کے لیئے درجه کمال کی تکمیل اور دوسرے گروه کو ذلت ورسوائی کے پست ترین درجه تک پهنچنا هے چوں که رجعت عام نهیں هے اور خالص مؤمن اور کافر محض کے لیئے مخصوص هے جیسا که امام جعفر صادق(علیه السلام) نے فرمایا هے : ((رجعت عام نهیں هے بلکه ان لوگوں سے مخصوص هے جو کامل الایمان یا بالکل مشرک هیں))[12]۔ لهذا پتا چلا که یهی دو امر رجعت کا بنیادی فلسفه اور حکمت هیں ۔
3. دین کی مدد اور عادلانه عالم گیر حکومت کی تشکیل میں شرکت :
متعدد آیات و روایات سے یه پتا چلتا هے که دن اسلام اور عدل الٰهی کی حکومت قائم آل محمد(عجل الله) کے قوی دست مبارک سے عالم گیر سطح پر هوگی خداوند عالم ارشاد فرماتا هے[13] : (( بیشک هم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور جس دن گمراه (پیغمبر،فرشتے گواهی کو) اﭩﻬ کھڑے هوں گے اس دن بھی مددد کریں گے ))
اس آیت کے ظاهر سے معلوم هوتا هے که مدد اجتماعی هوگی نه که فرداً فرداً؛ چوں که یه نصرت ان تک واقع نهیں هوئی هے لهذ امستقبل میں یقیناً هوگی کیوں که الله کے یهاں وعده شکنی نهیں هے اسی لیئے امام جعفر صادق(علیه السلام) اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے هیں ((خدا کی قسم یه نصرت ، رجعت میں هے ؛ اس لیئے که بهت سے انبیاء اور ائمه (علیهم السلام) اس دنیا میں شهداء کئے گئے لیکن کسی نے ان کی مدد نه کی اور یه امر رجعت کے موقع پر انجام پائے گا))[14]
امام محمد باقر(علیه السلام) بھی آیت ((هو الذی ارسل۔ ۔ ۔ ؛ یعنی وه (خدا) هے جس نے دین حق کے ساﭡﻬ اپنے رسول(صل الله علیه وآله وسلم) کو انسانوں کی هدایت کی خاطر بھیجا تا که اسے تمام ادیان پر کامیاب و کامران فرمائے )) کی تفسیر کرتے هوئے فرماتے هیں (( یظهره الله عز وجل فی الرجعۃ؛یعنی خداوند عالم رجعت کے موقع پر دین حق کو دیگر تمام ادیان پر بلندی و برتری عطا فرمائے گا))[15]۔
رجعت کے واقع هونے کا زمانه:
اس سلسله میں روایتیں نقل هوئی هیں که رجعت امام زمانه (عج) کے ظهور کے ﮐﭽﻬ دیر کے بعد اور قیامت برپا هونے اور آپ کی شهادت سے پهلے واقع هوگی۔
امام صادق(علیه السلام) اس سلسله میں ارشاد فرماتے هیں ((جب قائم آل محمد(عج) کے قیام کا وقت نزدیک هوگا تو جمادی الثانی اور رجب المرجب کے مهینے میں ایسی شدید بارش هوگی که لوگوں نے اس سے پهلے ایسی بارش نه دیکھی هوگی پھر خداوند عالم اسی بارش کے ذریعه مؤمنین کی هڈیوں اور گوشت کو قبر کے اندر هی رشد و نمو دے گا ؛ گویا که میں انھیں ﺪﯿﮐﻬ رها هوں که وه ((جهینه))[16] کی طرف سے اپنے بالوں کے گرد و غبار کو چھاڑتے هوئے آرهے هیں ))[17]
آخری نکته :
روایات کے مطابق سب سے پهلے رجعت کرنے والے سید الشهداء امام حسین(علیه السلام) هیں خود آپ (علیه السلام) سے اس طرح منقول هے ((میں سب سے پهلا شخص هوں کو زمین کے شگافته هونے کے بعد باهر آوں گا اور اس کا زمانه امیر المؤمنین کی رجعت اور قائم آل محمد(عج) کے قیام سے ملا هوا هوگا[18] ۔
اسی مضمون میں امام جعفر صادق(علیه السلام) سے بھی روایت منقول هے که آپ(علیه السلام) فرماتے هیں ((سب سے پهلے دنیا میں واپس آنے والے حسین ابن علی (علیه السلام) هیں ، وه اس وقت تک حکمرانی کریں گے جب تک که آپ (علیه السلام) کی بھویں بڑھاپے کی وجه سے آنکھوں پر لٹک نه جائیں گی[19]۔


[1]   فرهنگ معین ، ج 2 ، ص1640
[2]  سوره بقره /259
[3]  (( فامته الله مأ ۃ عام ثم بعثه ))
[4]  (( فقا ل لھم الله موموا ثم احیاھم ))
[5]  (( ثم بعثناکم من بعد موتکم لعلکم تشکرون))
[6]  (( و اذ تخرج الموتی باذنی))
[7]  (( فقلنا اضربوه ببعضها کذالک یحیی الله الموتی و یریکم آیاته لعلکم تعقلون))
[8]  تفسیر نمونه ، ج 15 ، صص546-557
[9]  عیون الاخبار الرضاء ، 2/201/1 ۔ به نقل از میزان الحکمۃ حدیث نمبر6924-6926
[10]  بحار ، ج 53 ، ص40
[11]  دوانی ، علی ، مھدی موعود ، ترجمه ، ج 13 ، ص 188 ، دارالکتب الاسلامیۃ ، طبع 27
[12]  ضمیری ، محمد رضا ، رجعت ، ص 55 ، نشر موعود ، تهران ، طبع دوم ،1380 ھ ۔ ق
[13]  سوره غافر/51
[14]  یزدی ، حائری ، شیخ علی ، الزام الناصب ، قم ، موسسه مطبوعاتی حق بین ، 1397 ھ
[15]  بحار ، ج 53 ، ص64
[16]  ((جهینه)) مدینه سے دور ایک جگه کا نام هے اور ایک قبیله بھی اسی نام کا هے مجمع البحرین ، ج 6 ، ص 230
[17]  میزان الحمکۃ ، حدیث نمبر 6928
[18]  میزان الحکمۃ، حدیث نمبر 6937
[19]  میزان الحکمۃ ، حدیث نمبر


علی علیہ السلام کی مودت میں نبی ﷺ کو خطبے کا حکم

حضرت جابر بن عبداللہ انصار رضی اللہ عنہ نے روایت بیان کی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ﷺ پر حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ : آپؐ کھڑے ہو جائیں اور اپنے اصھاب کے سامنے علی علیہ السلام کی فضیلت کا خطبہ دیں، تاکہ وہ آپؐ کے بعد آپؐ کی طرف سے اپنے بعد آنے ووں کے لیے تبلیغ کر سکیں اور تمام ملائکہ کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ ہم بیان کریں وہ اس کو غور سے سنیں۔
اے محمد ؐ ! اللہ نے آپؐ کی طرف وحی فرمائی ہے کہ جو شخص آپؐ کے حکم کی مخالفت کرے گا اس کے لیے جہنم کو لازم قرار دیا گیا ہے اور جو شخص آپؐ کی اطاعت کرے گا اس کی جزا جنت قرار دی گئی ہے۔ پس رسولِ خدا ﷺ نے اپنے منادی کو ندا کا حکم دیا۔ پس منادی نے نمازِ با جماعت کی ندا دی۔ پس لوگ جمع ہو گئے اور رسول ِ خدا ﷺ اپنے گھر سے باہر تشریف لائے اور منبر پر تشریف لے گئے اور جو سب سے پہلے کلمات آپؐ نے ادا فرمائے وہ یوں تھے:
اعوذ باللہ من الشیطان ارجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم
اور پھر فرمایا : اے لوگو! میں بشیر ہوں (بشارت دینے والا) میں نذیر ہوں (یعنی ڈرانے والا) میں بر حق نبی ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسے مد کے حق میں تبلیغ کرنے والا ہوں جس کا گوشت میرا گوشت ہے جس کا خون میرا خون ہے۔ وہ علم کا خزانہ ہے اور اس کو اللہ نے اس امت سے منتخب فرمایا ہے اور اس کو چن لیا ہے اس کو اپنا محبوب بنایا ہے اور اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ مجھے اور اس کو ایک مٹی سے بنایا ہے۔ پس مجھے اس نے رسالت کے ساتھ فضیلت عطا فرمائی ہے اور اس کو میرے تبلیغ کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ مجھے علم کا شہر قرار دیا ہے اور اس کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے اور اس کا علم کا خازن (یعنی خزانہ دار) قرار دیا ہے اور احکامِ دین کو اس سے لیا جائے گا اور اس کو وصایت و وصی قرار دیا گیا ہے اور اس کے امر کو ظاہر کیا ہے اور کی عداوت کے خوف کو بھی۔ اور اس کی موالات کو واجب قرار دیا ہے۔ اور اللہ نے تمام لوگوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جو اس سے عداوت رکھے گا گویا اس نے مجھ سے عداوت کی ہے اور جس نے اس سے دوستی کی اس نے مجھ سے دوستی کی ہے۔ جس نے اس سے بُغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی اور جس نے اس کی نا فرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی، اور جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے۔ جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے اس سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میرے اطاعت کی۔ اور جس نے اس کو راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا اور جس نے اس کی حفاظت کی اس نے میری حفاظت کی۔ جس نے اس سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی۔ جس نے اس کی مدد کی اس نے میری مدد کی۔ اور جس نے اس کا ارادہ کیا اس نے میرا ارادہ کیا اور جس نے اس کو روکا اس نے مجھے روکا۔
پھر فرمایا : اے لوگو ! جس کا تم کو اس کے بارے میں حکم دیا جائے اس کی اطاعت کرو اور میں تم کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں ( یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضرا وما عملت من سوء تودو لو ان بینھا وبینہ امدا بعیدا ویو ذرکم اللہ نفسہ)
’’ جس دن ہر نفس نے جو کچھ اس نے نیکی انجام دی ہو گی اس کو وہ اپنے سامنے پائے گا اور جو کچھ اس نے برا کام کیا ہو گا اس کو بھی اپنے سامنے پائے گا اور وہ خواہش کرے گا کہ اس کے اور اس کے عمل کے درمیان بہت زیادہ دوری ہو جائے اور اللہ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے ‘‘۔
رسول خدا ﷺ نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ ا اور فرمایا :
’’ اے لوگو! یہ ہے مومنین کا مولا، کافروں کو قتل کرنے والا اور یہ سارے جہانوں پر اللہ کی حجت ہے اور فرمایا : اے میرے اللہ ! میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے اور یہ تیرے بندے ہیں اور تو ان کی اصلاح پر قدرت و طاقت رکھتا ہے۔ اپنی رحمت کے ساتھ ان کی اصلاح فرما کیونکہ تو ہی رحم کرنے والا ہے‘‘۔
  1. پھر آپ ؐ منبر سے نیچے تشریف فرما ہوئے پس حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور عرض کیا : یا محمد ﷺ ! اللہ آپ کو سلام کہہ رہا ہے اور فرماتا ہے کہ آپؐ نے خیر کی تبلیغ کی ہے اس پر آپ ﷺ کے رب کی طرف سے آپؐ کے لیے جزائے خیر ہے۔ پس آپ ؐ نے اپنے رب کی رسالت کی تبلیغ فرمائی ہے اور اپنی امت کو نصیحت فرمائی ہے اور مومنین کو خوش کیا ہے اور کافرین کو ذلیل و رسوا کیا ہے۔ اے محمد ﷺ ! تحقیق یہ آپؐ کے چچا زاد کا ان کی وجہ سے امتحان ہو گا اور ان میں اُن کو آزمایا جائے گا۔
حوالہ : امالی شیخ المفید - مجلس 9 - حدیث 2
2

"فضیلت_ علی صلوات اللہ علیہ"ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ: ﻳﺎ ﺟﺎﺑﺮ ﺃﻱ ﺍﻻﺧﻮﺓ ﺃﻓﻀﻞ؟ ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ: ﺍﻟﺒﻨﻴﻦ ﻣﻦ ﺍﻷﺏ ﻭﺍﻻﻡ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﺎ ﻣﻌﺎﺷﺮ ﺍﻷﻧﺒﻴﺎﺀ ﺇﺧﻮﺓ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻓﻀﻠﻬﻢ ﻭﺃﺣﺐ ﺍﻻﺧﻮﺓ ﺇﻟﻲ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻓﻬﻮ ﻋﻨﺪﻱ ﺃﻓﻀﻞ ﻣﻦ ﺍﻷﻧﺒﻴﺎﺀ، ﻓﻤﻦ ﺯﻋﻢ ﺃﻥ ﺍﻷﻧﺒﻴﺎﺀ ﺃﻓﻀﻞ ﻣﻨﻪ، ﻓﻘﺪ ﺟﻌﻠﻨﻲ ﺃﻗﻠﻬﻢ، ﻭﻣﻦ ﺟﻌﻠﻨﻲ ﺃﻗﻠﻬﻢ ﻓﻘﺪ ﻛﻔﺮ، ﻷﻧﻲ ﻟﻢ ﺃﺗﺨﺬ ﻋﻠﻴﺎ ﺃﺧﺎ ﺇﻻ ﻟﻤﺎ ﻋﻠﻤﺖ ﻣﻦ ﻓﻀﻠﻪ، ﻭﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ ﺑﺬﻟﻚ.ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ (ﺹ) ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﮮ ﺟﺎﺑﺮ، ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ بھائی ﮐﻮﻥ ہوتا ہے ؟ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ : ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﻭﺍﻟﺪ ﻭ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ہو.ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ہم ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ بھائی ہیں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ہوں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ لئے ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﯿﺮﺍ بھائی ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐُ (ص) ہے. ﭘﺲ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ہے.ﺟﻮ ﯾﮧ ﮔﻤﺎﻥ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯽ (صُ) ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ہے ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺳﮯ ﮐﻤﺘﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﺎ ہے ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﻤﺘﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﺎ ہے ﻭﮦ ﮐﻔﺮ ﮐﺮﺗﺎ ہے.ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﻠﯽُ (ص) ﮐﻮ ﻣﯿﮟُ ﻧﮯ بھائی نہیں ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﻓﻀﻠﯿﺖ ﮐﻮ نہیں ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ.
حوالہ جات : ﺗﺄﻭﻳﻞ ﺍﻵﻳﺎﺕ - ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻨﻲ - ﺝ ٢ - ﺍﻟﺼﻔﺤﺔ ٥٦٧ / ﺍﻟﺼﺮﺍﻁ ﺍﻟﻤﺴﺘﻘﻴﻢ - ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﺍﻟﻌﺎﻣﻠﻲ - ﺝ ١ - ﺍﻟﺼﻔﺤﺔ ٢١١.

صراط مستقیم کون ؟


سوال صراط مستقیم سے مراد کون ہیں ؟اور ان کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟
ج امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ صراط مستقیم اللہ کی معرفعت کا راستہ ہے ۔اور یہ دو راستے ہیں ایک راستہ دنیا میں ہے اور ایک آخرت میں دنیا میں تو وہ امام ہےجس کی اطاعت مخلوق پر واجب کی گئی ہے اور آخرت میں راستہ وہ پل ہے جو جہنم پرہے دنیا میں جس نے امام کی معرفعت حاصل کرلی اور اس کی اطاعت کی وہ آخرت
میں پل آخرت سے آسانی سے گذر جائے گا اور جس نے دنیا میں امام کی معرفعت حاصل نہ کی آخرت میں پل آخرت سے اس کے قدم ڈگمگا جائیں گے اور جہنم میں گر جائے گا امام علی زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ اور حجت اللہ کے درمیان حجاب نہیں ہے اور نہ اللہ حجت سے درپردہ وحجاب ہوتا ہے ہم اللہ کے ابواب ہیں اور ہم صراط مستقیم ہیں اور ہم اس کے مخزن علم ہیں اور ہم اس کی وحی کی زبان اور مترجم ہیں اور ہم ارکان توحید ہیں اور ہم اس کے خزانہ اسرار ہیں ۔
تمام قرآنی حروف مقطعات جمع کرکے ان میں سے مکررحروف گرادیئے جائیں توچودہ حروف باقی رہتے ہیں جن سے یہ عبارت بنتی ہے ۔ صراط علی حق نمسکہ علی کا راستہ
حق ہے جس کی ہم پیروی کرتے ہیں ۔فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ القرآن مع علی و علی مع القرآن قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ ہیں ۔ اور قرآن مجید کے بارےمیں ارشاد خداوندی ہے کہ الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ الم قرآن وہ کتاب ہےجس میں ذرہ بھر کا بھی شک نہیں ہے ھدی للمتقین قرآن متقیوں کو ہدایت کرتی
ہے ۔ اب جو بھی ہدایت کا طالب ہے اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن کی اطاعت کرے اسی طرح اہلبیت اطہار کی اطاعت کرنا بھی ہر طالب ہدایت کیلئے لازم ہے۔
(معرفتہ المعصومین بالقرآن صفحہ ۷ ؛)